پاکستان میں پناہ کے لیے کراچی پہنچنے والے دو انڈین شہریوں کی نقل و حرکت کو ایدھی مرکز تک محدود کردیا ہے۔
سینیئر سپرانٹینڈنٹ آف پولیس، ڈسٹرکٹ کراچی سینٹرل کے ترجمان وقار علی کے مطابق ’پولیس کے اعلیٰ حکام جب تک کسی کارروائی کا حکم نہیں دیتے تب تک ان انڈین شہریوں کی نقل وحرکت کو ایدھی مرکز تک محدود کردیا گیا ہے۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے وقار علی نے کہا کہ ’پولیس حکام نے دونوں انڈین شہریوں کے کوائف جمع کر لیے ہیں۔ مزید کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام کو لکھا ہے، جیسے ہی پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے احکامات آئیں گے، اس حساب سے ان پر کوئی کارروائی کریں گے۔‘
’فی الحال ہم نے دونوں انڈین شہریوں کو ہدایت کی ہے کہ اپنی نقل و حرکت ایدھی مرکز کی حدود تک ہی محدود رکھیں۔ مزید کارروائی کے لیے پولیس کے اعلیٰ حکام کی ہدایت کا انتظار ہے۔‘
14 ستمبر کی شام کو ایدھی مرکز آنے والے انڈین شہریوں میں 70 سالہ محمد حسنین اور 31 سالہ اسحاق امیر شامل ہیں۔ محمد حسنین کے مطابق اسحاق امیر ان کے بیٹے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے محمد حسنین نے کہا کہ ان کا تعلق انڈیا کے شہر دہلی کے علاقے فیروز پور سے ہے اور وہ ہندی اور اردو میں ایک ہفت روزہ اخبار ’دی میڈیا پروفائل‘ چلاتے ہیں اور ساتھ میں سماجی کاموں میں حصہ لیتے ہیں۔ ’انڈیا میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بڑی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ ہمارے ساتھ بھی زیادتی ہوتی رہی۔ ایک دو بار مجھے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک بار میں اپنے بیٹے ساتھ تھا تو وہاں جان جاتے جاتے بچی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ ’دو بار میرے بیٹے کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ وہاں یہ عام ہے۔ اس لیے ہم تنگ آ گئے تھے اور گذشتہ دو تین سالوں سے ہم پاکستان آنا چاہتے تھے۔ کیوں کہ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ہم کہیں کی شہریت خرید سکیں۔ ہم نے انڈیا میں پاکستان ایمبیسی سے رابطہ کیا مگر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مقیم اگر کوئی ہمارا رشتہ دار یا جاننے والا ہے اور وہ گارنٹی دے تو ہمیں پاکستان کا ویزا مل سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں ہمارا کوئی رشتہ دار یا جاننے والے نہیں ہیں۔‘
محمد حسنین کے مطابق اس کے بعد انہوں نے سوچا کہ ویزا لے کر متحدہ عرب امارات چلے جائیں اور وہاں سے افغانستان کا ویزا لینے کے بعد زمینی راستے سے پاکستان میں داخل ہوں۔
محمد حسنین نے متحدہ عرب امارات اور افغانستان کے ویزوں کی نقول، بورڈنگ پاسز اور متحدہ عرب امارات میں ہوٹل کے بل دکھاتے ہوئے کہا کہ ’ہم پانچ ستمبر کو ویزا لے کر متحدہ عرب امارات پہنچے، وہاں سے ویزا لے کر افغانستان کے شہر کابل آئے جہاں سے بذریعہ جہاز قندھار اور پھر اسپن بولدک کے بعد چمن سے پاکستان کی سرحد پار کی۔‘
’افغان بارڈر پر ہمارے تمام سفری دستاویز لے لیے گئے تھے۔ پھر ہم 14 ستمبر کو کراچی پہنچے اور اب ایدھی مرکز میں رہ رہے ہیں۔ یہاں ہمیں کھانا اور رہائش دی جا رہی ہے۔ ہم نے پولیس حکام سے ملنے کی کوشش بھی کی مگر ہم سے اب تک کوئی نہیں ملا ہے۔ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں پناہ دی جائے یا کوئی سرکاری کاغذ دیا جائے تاکہ ہم یہاں زندگی گزار سکتے ہیں۔ اب ہمارے لیے واپس انڈیا جانا ممکن نہیں۔‘
ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دونوں انڈین شہریوں کو ایدھی مرکز میں رکھا گیا ہے۔
انڈین سفارت خانے سے ان کا موقف جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے رابطہ کیا ہے، تاحال ان کی طرف سے جواب موصول نہیں ہوا۔ ان کا موقف موصول ہونے کی صورت میں یہاں شامل کر دیا جائے گا۔