جنوبی وزیرستان کے صحافی معراج خالد وزیر کی طرف سے سوشل میڈیا پر مقامی جرگے کے فیصلوں پر حالیہ تنقید کے سبب اب ان کے خاندان کو ضلع بدر کر دیا گیا ہے جب کہ ان کے گھر کو مسمار کیے جانے کا خطرہ بھی بدستور موجود ہے۔
صحافی معراج خالد وزیر نے سوشل میڈیا کے ذریعے مقامی جرگے کے بعض فیصلوں کو ’غیر قانونی‘ کہا تھا جس پر چند روز قبل جرگے نے انہیں پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی جب کہ رقم کی ادائیگی نہ ہونے کے نتیجے میں معراج کا مکان مسمار کرنے کے احکامات جاری کر دیے ہیں۔
جرگے کے فیصلے کے بعد اب صحافی کے مکان کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی ہے۔
جنوبی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) فرمان اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’جرگے کے اراکین کی گرفتاری کے لیے حکمت عملی ترتیب دی جا رہی ہے جبکہ فوری طور پر 100 سے زائد نفری متاثرہ خاندان کے گھر پر تعینات کی گئی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’گھر ہمارے قبضے میں ہے۔ جرگہ یا کسی شخص کو گھر کے قریب پھٹکنے نہیں دیں گے۔ گرفتاری کے لیے پولیس کی ایک حکمت عملی ہوتی ہے۔‘
جنوبی وزیرستان کے ڈی پی او نے مزید کہا کہ ’پولیس و انتظامیہ پہلے بھی ایسے عناصر کو گرفتار کرکے سزائیں دے چکی ہے۔‘
ڈی پی او فرمان اللہ کے بقول: ’جرگے میں شامل لوگ ڈھٹائی دکھاتے ہیں تاکہ اپنی برتری قائم کر سکیں۔‘
دوسری جانب شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے اور میرانشاہ پریس کلب صدر صفدر داوڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ ویڈیو ثبوت شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جرگے میں شامل بعض عمائدین اپنے فیصلے سے مکر گئے ہیں۔
’وزیرستان میں جرگہ سسٹم اب بھی بہت مضبوط اور فعال ہے۔ لیکن اگر اسی طرح عوامی دباؤ اور حکومت کا ساتھ ہوگا تو یہ کمزور پڑ سکتے ہیں۔‘
متاثرہ خاندان کی کہانی
صحافی معراج خالد نے 26 ستمبر کو انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’مقامی نو ارکان پر مشتمل جرگے نے ان کے خاندان کو 25 ستمبر کی سہ پہر ضلع بدر ہونے کی مہلت دی تھی۔
’گذشتہ روز (25 ستمبر) کی سہ پہر کو پورے قبیلے نے لشکر کی صورت میں ہمارے گھر کو گھیر لیا اور ہمارے خاندان کو گھر بار سب کچھ چھوڑ کر جانا پڑا۔ تاہم صحافی طبقے اور عوام نے بھرپور آواز اٹھائی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ اگرچہ گھر مسمار نہیں ہوا لیکن گھر کو تالے لگائے گئے جبکہ ان کے والدین اور بیوی بچے اسلام آباد میں ایک کرائے کے مکان چلے گئے ہیں جو دوست و احباب کے تعاون سے فوری طور پر ڈھونڈا گیا تھا۔
خالد کے مطابق وہ پچھلے پانچ سال سے صحافت کے شعبے سے منسلک ہیں، تاہم اقتصادیات کے مضمون میں دلچسپی کے سبب انہوں نے چین کی کی ایک یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہوا ہے۔
’میں اس وقت چین میں ہوں اور (جرگے کے فیصلوں سے متعلق) پوسٹ بھی میں نے یہیں سے لکھی تھی۔ میں نے صرف ریاستی قوانین کی پاسداری کرنے اور وزیرستان میں انسانی حقوق کی پامالی پر بات کی تھی، جو اراکین جرگہ کو بری لگی۔‘
معراج کے والد شیر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر میرے بیٹے نے کچھ خلاف قانون بات کی ہے تو اس کو سزا دینا ریاست کا کام ہے نہ کہ ریاست کے اندر اپنی ریاست بنانے والوں کا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگرچہ جرگے میں صرف نو لوگ تھے تاہم جرگے کی پشت پر ان کا پورا قبیلہ ہوتا ہے جن کو جرگے کا ساتھ دینے کا پابند بنایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ علاقے کے جو لوگ متاثرہ خاندان سے ہمدردی کرتے ہیں ان کو 10 لاکھ جرمانہ کیا جاتا ہے یا گھر کی مسماری کا حکم دیا جاتا ہے۔
میرانشاہ پریس کلب کے صدر صفدر داوڑ کے مطابق صحافی کا گھر مسمار کرنے کا فیصلہ بھی اسی بنا پر کیا گیا کہ کیوں کہ انہوں نے گھروں کی مسماری اور جلاوطنی جیسے فیصلوں کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔
صحافی معراج خالد وزیر کے والد شیر علی کے مطابق وہ گاؤں میں کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے، ان کے سیب کے باغات ہیں، جس کی رکھوالی کرنے والا اب وہاں کوئی نہیں رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ڈر ہے ان کے باغات ویران ہوجائیں گے جبکہ ان کے مال مویشی بھوک اور پیاس سے مر جائیں گے۔
صحافی معراج اور ان کے والد نے حکومت سے گزارش کی کہ انہیں مکمل تحفظ فراہم کرکے ان کے گھر کے تالے کھول دیے جائیں۔