مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افغانوں کو واپس بھیجا جائے گا: پاکستان

پاکستان میں وفاقی سطح پر افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال سے متعلق اُمور کی نگران وزارت برائے ریاستی اور سرحدی امور (سیفران) کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم میں ملوث افغان پناہ گزینوں کو جلد ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔

وزارت سیفران کے وفاقی سیکرٹری پرویز احمد جنجوعہ نے بتایا کہ ملک کی سلامتی پہلی ترجیح ہے اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افغانوں کو پہلے مرحلے میں واپس بھیجا جائے گا اور ان کے بقول یہ کام جلدی ہو گا۔ 

پاکستان میں وفاقی سطح پر افغان پناہ گزینوں کی دیکھ بھال سے متعلق اُمور کی نگران وزارت برائے ریاستی اور سرحدی امور  (سیفران) کے سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ملک میں جرائم میں ملوث افغان پناہ گزینوں کو جلد ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔

وزارت سیفران کے وفاقی سیکرٹری پرویز احمد جنجوعہ نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک تقریب میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’جو لوگ یہاں کریمنل ایکٹیویٹز (مجرمانہ سرگرمیوں) میں ملوث ہیں ان کو پہلے مرحلے میں افغانستان واپس بھیجا جائے گا اور وہ جلدی ہو گا۔ باقی جو دوسرے مرحلے ہیں ان کے بارے میں بھی ہم فیصلہ کر رہے ہیں۔‘

سیکرٹری پرویز احمد جنجوعہ پاکستان کے شہری علاقوں میں افغان پناہ گزینوں کی ضروریات سے متعلق ایک مطالعاتی تحقیق کے اجرا کے موقع پر منعقدہ تقریب میں موجود تھے، جہاں انہوں نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری کے بارے میں چلنے والی خبروں سے متعلق سوالات کے بھی جواب دیے۔

پاکستان میں یہ خبریں گرم ہیں کہ حکومت نے غیر اندارج شدہ افغان پناہ گزینوں کے خلاف بڑی کارروائی کا آغاز کر دیا ہے اور گرفتاریاں بھی جاری ہیں جبکہ جلد ہی پناہ گزینوں کی واپسی سے متعلق ایک پالیسی کو بھی منظوری کے لیے کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

وفاقی سیکرٹری پرویز احمد جنجوعہ نے یہ تو نہیں بتایا کہ حکومت کب تک نئی پالیسی متعارف کروا دے گی لیکن ان کا کہنا تھا کہ ملک کی سلامتی پہلی ترجیح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کو سکیورٹی سے متعلق شدید تحفظات ہیں، خیبر پختونخوا میں بلوچستان میں جو آئے دن واقعات ہوتے رہتے ہیں تو سکیورٹی بھی ہماری ترجیح ہے۔‘

پرویز احمد جنجوعہ کا کہنا تھا کہ’جو بھی اگر کسی جرم میں ملوث ہے اور آپ کو پتہ ہے چاہے وہ سکیورٹی کا ایشو ہو، چاہے وہ دہشت گردی ہو یا کرنسی سمگلنگ کا ایشو ہے، ظاہر ہے ہمارے ادارے متحرک رہتے ہیں جو بھی عناصر ان چیزوں میں ملوث ہوں گے ان کو واپسی بھیجنا ہماری ترجیح ہو گی۔‘

افغان پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے ’افغان ریفیوجی کونسل آف پاکستان‘ کے رہنما حاجی عبد اللہ بخاری نے گذشتہ ہفتے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں دعویٰ کیا تھا کہ نو سے 19 ستمبر تک پاکستان میں پولیس نے چار ہزار سے زائد افغان باشندوں کو حراست میں لیا جن میں سے قانونی دستاویزات موجود ہونے کے باعث 2800 کو تو رہا کر دیا گیا جبکہ 1200 کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔

لیکن جب سیکریٹری پرویز احمد جنجوعہ سے ایسی کارروائیوں کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں اس طرح کا کوئی، (افغان پناہ گزینوں) کے خلاف کوئی بڑا آپریشن نہیں ہو رہا ہے، قانون کے تحت جو ممکن اقدامات ہوتے ہیں وہی ہم لے رہے ہیں۔‘

پرویز جنجوعہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی واپسی 2002 میں شروع ہوئی اور اس وقت سے اب تک 44 لاکھ افغان اپنے ملک واپس جا چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق پی او آر کارڈ یعنی پاکستان میں رہنے کا عارضی اجازت نامہ رکھنے والے افغان شہریوں کی تعداد 13 لاکھ ہے جبکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ 10 لاکھ افغان بغیر کوائف کے پاکستان میں مقیم ہیں۔

پاکستان افغان باشندوں کو پناہ دینے والا ایک بڑا ملک ہے جہاں افغان پناہ گزین چار دہائیوں سے زائد عرصے سے مقیم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد بڑی تعداد میں افغان باشندے سرحد پار کر کے پاکستان پہنچے، جن کے پاس اب یہاں مزید رہنے کے لیے ضروری دستاویزات نہیں ہیں۔

گذشتہ ہفتے پاکستان کے نمائندہ خصوصی آصف درانی نے کابل کا دورہ کیا تھا اور افغانستان کے عبوری وزیر اطلاعات اور ثقافت خیر اللہ خیرخوا سے ملاقات میں دیگر امور کے علاوہ پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی صورت حال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

پاکستان کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ حکومت غیر قانونی پناہ گزینوں کو ان کے ملک واپسی بھیجے گی اور اس بارے میں ایک موثر پالیسی پر کام کیا جا رہا ہے۔

1980  کی دہائی کے اوائل میں پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کے لیے اپنے دروازے اس وقت کھولے جب پڑوسی ملک میں روس (اس وقت نے سویت یونین) کی افواج وہاں داخل ہو گئی تھیں۔ 

ابتدا میں افغان پناہ گزین مختص افغان بستیوں میں رہتے تھے لیکن گزرتے وقت کے ساتھ وہ ملک کے شہری علاقوں میں بسنے لگے۔ شہری علاقوں میں افغان پناہ گزینوں کی ضروریات سے متعلق ایک تحقیقی رپورٹ کا اجرا اسلام آباد میں ہوا۔

یہ رپورٹ افغان ریفیوجی کمشنریٹ نے جرمنی کے ادارے کے تعاون سے مرتب کروائی جس میں نا صرف افغان پناہ گزینوں بلکہ جن علاقوں میں رہ رہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کے مسائل کی نشاندہی بھی کی گئی۔

پاکستان طویل عرصے سے بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور ان کے اپنے وطن میں آباد کاری کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے جن میں ماضی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان