پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں 12 افراد پر مشتمل افغان خاندان ہزاروں دیگر لوگوں کی طرح پناہ گزین کی حیثیت سے امریکہ جانے کے لیے اپنی درخواست پر پیشرفت کا انتظار کر رہا ہے۔
جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے افغان خاندان کے پیسے ختم ہو رہے ہیں اور اس کی پریشانیاں بڑھ رہی ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق 18 سالہ مرویٰ چھوٹے سے باورچی خانے میں سبزیاں کاٹ رہی ہیں۔ ان کے والد افغانستان میں کام کرنے والی امریکی امدادی تنظیم میں گارڈ تھے۔
افغان خاندان نے ان جیسے افغانوں کے لیے اس خصوصی پروگرام کے تحت امریکہ میں آباد کاری کے لیے درخواست دے رکھی ہے، جو امریکی تنظیموں کے لیے کام کرتے تھے۔ اس پروگرام کو پی ٹو کہا جاتا ہے۔
مرویٰ کا کہنا ہے کہ ’ہم دن میں دو بار کھانا پکاتے اور کھاتے ہیں۔ کچھ دن ہم پیسے بچانے کے لیے تو کم بھی کھاتے ہیں۔‘
روئٹرز نے سکیورٹی وجوہات کی بنا پر افغان خاندان کے مکمل نام پوشیدہ رکھے ہیں۔ افغان خاندان نے افغانستان میں اپنا گھر فروخت کر دیا تھا۔ گذشتہ سال امریکی حکام کی جانب سے ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی درخواست پر کارروائی کے لیے کسی تیسرے ملک کا سفر کریں۔
جرمنی کے دارالحکومت برلن میں ماضی میں جرمن اداروں کے ساتھ کام کرنے والے افغان پناہ گزینوں نے مظاہرہ کیا، جس میں انہوں نے برلن سے افغانستان میں رہ جانے والے ان کے اہل خانہ کو جرمنی بلانے کے لیے انتظامات کرنے کا مطالبہ کیا۔
مرویٰ کے شوہر خلیل زاد کا اندازہ ہے کہ ان کی فیملی کی بچت زیادہ سے زیادہ دو ماہ تک چلے گی۔
خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ’دو سال گزر چکے ہیں لیکن حالات بہتر نہیں ہوئے۔ انہیں ہماری بنیادی ضرورت پر غور کرنا چاہیے اور معاملہ تیزی سے نمٹانا چاہیے۔ یہ عمل بہت سست روی سے آگے بڑھ رہا ہے۔‘
مغربی ملکوں میں پناہ گزین کی حیثیت اور ویزے کے لیے درخواست دینے والے ہزاروں افغان شہریوں کے لیے پڑوسی ملک پاکستان ہی واحد راستہ تھا۔ کمیونٹی ارکان اور وکلاء کے مطابق پی ٹو پروگرام سے مستفید ہونے کے لیے 16 سے 20 ہزار کے درمیان درخواست دہندگان پاکستان میں مقیم ہیں۔
زیادہ تر افغانوں کو کام کرنے کی اجازت نہیں ہے اور وہ سرکاری سکولوں تعلیم اور صحت کی سہولیات کے اہل نہیں ہیں۔
سال 2001 میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت کے بعد دو دہائیوں میں بہت سے لوگ نے افغانستان میں متوسط طبقے میں شامل ہو گئے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ اب انہیں پاکستان میں غربت کا سامنا ہے جہاں معاشی بحران کا سامنا کرنے والی حکومت مغربی حکومتوں کی درخواست پر آنے والے افغانوں کی تعداد کے بارے میں فکرمند ہے۔
اپنی ویزا درخواستوں پر کارروائی کا انتظار کرنے والے افغانوں کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستانی حکام کی جانب سے حراست میں لیے جانے کا خوف ہے۔ اس لیے جیسا کہ بہت سے افغانوں نے بتایا ہے وہ جتنا ممکن ہو گھر کے اندر ہی رہتے ہیں۔
جیل جیسی زندگی
افغان خاندان کے بچے ایک سال سے زیادہ عرصے سے سکول نہیں گئے۔
حال ہی میں موسم گرما میں ایک دن 12 سالہ اسرا اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھانے میں مصروف تھیں۔
اسرا کہتی ہیں کہ ’میں انہیں کبھی کبھار پڑھاتی ہوں لیکن مجھے فکر ہے کہ نہ تو وہ اور نہ ہی میں اسکول جاتے ہیں۔ ہر روز میں ایک قیدی کی طرح گھر پر ہوتی ہوں۔‘
اسرا کو افغانستان میں اسکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔ طالبان نے 2021 میں اقتدار میں واپسی کے بعد لڑکیوں کے ہائی سکول بند کر دیے تھے۔
اسرا کے بقول: ’جب میں دوسری لڑکیوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھتی ہوں تو مجھے بہت تکلیف ہوتی اور میں پریشان ہوتی ہوں کہ میں ایسا نہیں کر سکتی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں اپنے خاندان کے ساتھ امریکا جانا چاہتی ہوں اور اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہوں۔ میں جج بننا چاہتی ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سال 2021 میں جب طالبان افواج نے کابل پر قبضہ کیا تو امریکی قیادت میں غیر ملکی فوجیوں کے جلد بازی میں ہونے والے انخلا کے دوران امریکہ اور برطانیہ جیسے مغربی ممالک نے افغان شہریوں کی مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ خاص طور پر ان افغانوں کی جنہوں نے ان کے لیے کام کیا تھا یا ان کی امداد سے چلنے والے منصوبوں میں کام کیا لیکن بہت سے لوگ مایوس ہوئے ہیں۔
اگرچہ طالبان نے ماضی کے دشمنوں کے لیے عام معافی کا اعلان کر رکھا ہے لیکن بہت سے افغانوں کو انتقامی کارروائیوں، آزادیوں پر پابندی اور خواتین کی تعلیم اور کام پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ معاشی مشکلات کا خوف ہے۔
افغانوں کی دوبارہ آبادکاری میں مدد کرنے والے امریکی رضاکار گروپوں کے اتحاد ’افغان اویک (Afghan Evac )‘ کے بانی شان وان ڈیور کا کہنا ہے کہ حال ہی میں پی ٹو پروسیسنگ میں پیش رفت ہوئی ہے۔
وین ڈیور کا کہنا ہے کہ ’یہ اس سے کئی سال آگے ہے جہاں ہم ایک ماہ پہلے تھے۔‘
لیکن انہوں نے خبردار کیا کہ پروسیسنگ کا ’دائرہ کار محدود‘ ہے اور اس میں ’تیز ی نہیں آئے گی۔‘
خلیل زاد خاندان کا آخری باضابطہ رابطہ مئی میں ایک مختصر ای میل تھا۔
خلیل زاد کے مطابق: ’اگر پیسے خرچ ہوتے رہے تو ہمارا بچا کھچا پیسہ مزید ایک یا دو مہینے چلے گا۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ ہم غیر یقینی کی حالت میں ہیں۔ منزل کا پتہ نہیں۔‘