پاکستان فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے ہفتے کو کوئٹہ کے دورے کے موقع پر کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بلا تعطل جاری رہے گا۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے ہفتے کو کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انہیں مستونگ اور ژوب میں ہونے والے حالیہ دہشت گرد حملوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ’12 ربیع الاول کو ہونے والی دہشت گردی اور اس طرح کے واقعات خوارج کے مذموم عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس دہشت گردی کو بیرونی ریاستی سرپرستوں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔‘
بیان کے مطابق بریفنگ میں وفاقی وزیر داخلہ، وزیر اعلیٰ بلوچستان اور اہم صوبائی وزرا کے علاوہ اعلیٰ سول و عسکری حکام نے بھی شرکت کی۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق آرمی چیف کا کہنا ہے کہ ’دہشت گردوں کے خلاف ہمارا آپریشن بلا تعطل جاری رہے گا اور مسلح افواج، انٹیلی جنس ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھیں گے جب تک ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا۔‘
بیان کے مطابق آرمی چیف نے اس دوران سی ایم ایچ کوئٹہ کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے مستونگ واقعے کے زخمیوں اور ان کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔
اس سے قبل نگران وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ریاست نے فیصلہ کیا ہے ’دہشت گردوں کے محفوظ‘ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور ’آخری دہشت گرد‘ تک کارروائی کی جائے گی۔
نامہ نگار ہزار خان بلوچ کے مطابق سنیچر کو کوئٹہ میں وزیراعلیٰ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’نگران وزیراعلیٰ کے ساتھ کور ہیڈکوارٹرز میں اس معاملے پر اجلاس ہوا ہے۔ بطور ریاست ہمیں پتہ ہے کہ اس کے پیچھے کون ہے اور کون یہ کر رہا ہے۔ ہم پاکستانی بھائیوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا حساب لیں گے۔‘
ان کے مطابق ’ریاست نے تہیہ کر لیا ہے کہ اس حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے گی۔ آخری دہشت گرد تک جائیں گے اور اس کا قلع قمع کریں گے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ریاست پاکستان کے تمام ادارے ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ دہشت گردوں کے آگے سرندڑ نہیں کریں گے اور ان کے خلاف جس حد تک جانا پڑا جائیں گے اور جتنا بڑا آپریشن کرنا پڑا کریں گے۔‘
سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ ’ریاست نے اپنی رٹ قائم کرنی ہے۔ داعش ہو یا ٹی ٹی پی ہمارے لیے سب ایک ہیں۔ ان سب کو ایک جگہ سے ہینڈل کیا جا رہا ہے۔ ان سب کے پیچھے را ہے۔ اس سے پہلے بھی جو واقعات ہوئے ہیں اس سب میں را ہی ملوث رہی ہے۔‘
داعش کی بلوچستان میں موجودگی کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’اس تنظیم کی منظم موجودگی اس سے پہلے بلوچستان میں نہیں تھی۔‘
سرفراز بگٹی کے مطابق ’یہ 12 ربیع اول کے جلوس پر بلوچستان میں پہلا حملہ ہے۔ اس سے پہلے محرم میں اور ہزارہ برادری کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے۔ یہ اس قسم کا پہلا حملہ ہے۔ سکیورٹی لیپس ہوا تو صوبائی حکومت ڈی سی ہو یا ایس پی ان کو نہیں چھوڑے گی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ پر حملے کے ماسٹر مائنڈ کو مار دیا ہے۔‘
اس سے قبل بلوچستان کے شہر مستونگ میں عید میلاد النبی کے جلوس پر اور خیبر پختونخوا کے ضلع ہنگو کی ایک مسجد میں جمعے کو ہونے والے خودکش دھماکوں کے مقدمات ہفتے کو نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف درج کر لیے گئے۔
پولیس اور محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ دونوں حملوں میں سات بچوں سمیت کم از کم 64 اموات ہو چکی ہیں جبکہ متعدد افراد زخمی ہیں۔
ان دھماکوں کی ذمہ داری کسی گروپ نے قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے اپنے ایک بیان میں مستونگ اور ہنگو میں ہونے والے دھماکوں کی مذمت کی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار ہزار خان بلوچ نے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے ترجمان کے حوالے سے بتایا کہ مستونگ میں خودکش حملے کا مقدمہ کوئٹہ کے سی ٹی ڈی تھانے میں نامعلوم حملہ آوروں کے خلاف درج کیا گیا۔
سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق مقدمے میں قتل، اقدام قتل اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں تاہم ’کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔‘
دوسری جانب ہنگو میں دوآبہ پولیس سٹیشن کی مسجد میں دھماکے کا مقدمہ بھی ہفتے کو درج کیا گیا۔
دوآبہ پولیس سٹیشن کے محرر شاہد خان نے انڈپینڈنٹ اردو کے نامہ نگار اظہاراللہ کو بتایا کہ مقدمہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا ہے۔
مستونگ حملہ
پولیس کے مطابق بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ہونے والے پہلے دھماکے میں ایک حملہ آور نے پولیس کی گاڑی کے قریب دھماکہ خیز مواد سے خود کو اڑا لیا تھا، جہاں لوگ 12 ربیع الاول کے جلوس کے لیے جمع تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ صحت بلوچستان کے میڈیا کوآرڈینیٹر وسیم بیگ نے ہفتے کو انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مستونگ دھماکے میں جان سے جانے والوں کی تعداد 59 ہوچکی ہے۔
اس سے قبل ضلعی صحت کے اہلکار عبدالرشید نے بتایا تھا کہ جان سے جانے والوں میں 9 سے 11 سال کے بچے بھی شامل تھے جبکہ کم از کم 58 افراد زخمی ہوئے۔
حملے میں جان سے جانے والوں میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس (ڈی ایس پی) نواز گشکوری بھی شامل تھے، جو علاقے میں حفاظتی انتظامات کی نگرانی کر رہے تھے۔
ایک سینیئر پولیس افسر جاوید لہڑی نے روئٹرز کو بتایا: ’نواز گشکوری نے خودکش حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی، لیکن اس نے ان کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔‘
انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس عبدالخالق شیخ نے جمعے کو بتایا تھا کہ ابتدائی شواہد کے مطابق دھماکہ خودکش تھا، جس میں چھ سے آٹھ کلو گرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
دوسری جانب نگران وزیر اعلیٰ بلوچستان علی مردان ڈومکی کا کہنا تھا کہ مستونگ دھماکے سے متعلق ابتدائی شواہد سامنے آئے ہیں اور تحقیقات درست سمت میں جا رہی ہیں۔
ہنگو حملہ
خیبرپختونخوا کے ضلع ہنگو کے علاقے دوآبہ کے پولیس سٹیشن کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے خطبے کے دوران دو خودکش دھماکے ہوئے، جس کے نتیجے میں مسجد کی چھت گرنے سے 30 سے 40 افراد ملبے تلے دب گئے اور پانچ اموات رپورٹ ہوئیں۔
ڈپٹی کمشنر ہنگو فضل اکبر کے مطابق اس حملے میں دو دھماکے ہوئے۔ ایک دھماکہ مسجد کے گیٹ پر ہوا، جس کے بعد نمازی باہر چلے گئے اور یوں زیادہ تر لوگ بچ گئے جبکہ دوسرا دھماکہ مسجد کے احاطے میں کیا گیا۔
نگران وزیراعظم پاکستان انوارالحق کاکڑ نے جمعے کو ’آخری دہشت گرد کے خاتمے تک‘ جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ان کا کہنا تھا: ’مستونگ اور ہنگو میں آج کے دہشت گرد حملوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں ہونے والے واقعات کے زخم تازہ کر دیے ہیں۔‘
سعودی عرب، ایران، افغانستان، امریکہ، ترکی اور کویت نے بھی 12 ربیع الاول کے دن ہونے والے ان حملوں کی مذمت کی۔
#Statement | The Foreign Ministry expresses the Kingdom of Saudi Arabia’s strong condemnation and denunciation of the cowardly terrorist attacks that took place in several provinces of the Islamic Republic of Pakistan, which resulted in the killing and injury of many people. pic.twitter.com/mAiYvkFgd7
— Foreign Ministry (@KSAmofaEN) September 29, 2023
سعودی وزارت خارجہ نے پاکستان میں ’بزدلانہ دہشت گرد‘ حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاکستان اور اس کے عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔