سندھ کے شہید بے نظیر آباد ضلع کے شہر سکرنڈ کے نزدیک گاؤں ماڑی جلبانی میں مبینہ طور پر پولیس اور رینجرز کی فائرنگ سے چار افراد کے قتل کے بعد رہائشی سراپا احتجاج ہیں تاہم حکومت و قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ گاؤں والوں کی مزاحمت کے بعد پیش آیا اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔
گذشتہ ہفتے ہونے والے اس واقعے کے بارے میں چار بچوں کی والدہ جنت جلبانی نے کہا کہ اس دن شام کے تین بجے کا وقت تھا جب گاؤں کے کچھ افراد اور ان کے دو بیٹے کھیتی باڑی سے واپس لوٹے تھے اور گھر میں پڑی گھاس کاٹنے والی مشین پر مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے تھے کہ اچانک بہت سے باوردی اہلکار گھر میں گھس آئے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے جنت جلبانی نے کہا: ’اتنی بڑی تعداد میں باوردی اہلکاروں کو اچانک گھر میں دیکھ کر ہم خواتین ڈر کر رونے لگیں۔ اہلکاروں نے میرے تین بیٹوں 30 سالہ امام الدین، 26 سالہ نظام الدین عرف کِرڑ اور 24 سالہ امام بخش عرف اکن کو پکڑ لیا۔ ہم نے اہلکاروں کے سامنے ہاتھ باندھے، جھولی پھیلائی، مگر انہوں نے نہیں سنا۔
’اہلکاروں نے تینوں بھائیوں کو گھر کے صحن کے باہر نیچے بٹھا دیا۔ ہم ان کا قصور پوچھ رہے تھے کہ اہلکاروں نے میری نظروں کے سامنے اچانک فائر کھول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے گھر کا آنگن میرے ہی بیٹوں کے خون سے لال ہوگیا۔ اہلکاروں نے میرے تڑپتے بیٹے نظام الدین کو بوٹ سے پلٹا کر ایک اور گولی ماری۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے دو بیٹے نظام الدین اور امام بخش وہیں جان سے چلے گئے جب کہ شدید زخمی شوہر اللہ داد اور تیسرے بیٹے امام الدین کو نازک حالت میں سول ہسپتال نواب شاہ لے جایا گیا۔
جنت جلبانی کے مطابق ان کے شوہر اللہ داد کی حالت خراب ہونے کے باعث انہیں علاج کے لیے کراچی منتقل کیا گیا ہے۔
ان کے بقول: ’میرے دونوں بیٹے کبھی سکول نہیں گئے، وہ پڑھنا لکھنا نہیں جانتے تھے۔ ہماری اپنی زرعی زمین نہیں ہے۔ میرے شوہر نے کرایے پر دو ایکڑ لیے ہیں۔ ان دو ایکڑ پر میرے بیٹوں نے کپاس کاشت کی ہے۔ دونوں بے زمین ہاری (کسان) تھے۔ کپاس کی فصل تیار تھی کہ یہ سانحہ ہوگیا۔
’میرے بیٹوں اور شوہر پر کوئی مقدمہ تو دور کی بات ہے، تھانے پر کوئی شکایت تک نہیں ہے۔ میرے بیٹوں کی آج تک کسی سے لڑائی نہیں ہوئی۔ میرے بیٹے نظام الدین کی 12 اکتوبر کو شادی ہونی تھی۔ ہم نے شادی کا سامان، دلہے کا سہرا، کپڑے اور دیگر چیزیں خرید لیں تھی۔ اب ان چیزوں کو دیکھتی ہوں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔‘
گاؤں ماڑی جلبانی میں 28 ستمبر کو پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی مبینہ فائرنگ سے چار افراد میں نظام الدین اور امام بخش اور ان کے چچا زاد بھائی میہار جلبانی اور قریبی رشتہ دار سجاول جبانی جان سے گئے۔ جب کہ فائرنگ سے جنت کے شوہر اللہ داد، ان کا بڑا بیٹا امام الدین، دو دیگر افراد سارنگ اور لیاقت جلبانی زخمی ہوگئے تھے۔
زخمی ہونے والے لیاقت جلبانی کے والد شہمیر جلبانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میرا بیٹا لیاقت شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی آف ویٹنری اینڈ اینیمل سائنسز سکرنڈ کا طالب علم ہے۔ لیاقت کو صبح 11 بجے یونیورسٹی کے قریب سے حراست میں لیا گیا اور جب اہلکار ہمارے گاؤں میں آئے تو لیاقت کو زخمی حالت میں چھوڑ گئے۔‘
شہمیر جلبانی کے مطابق زخمی اللہ داد ان کے بھائی ہیں اور قتل ہونے والے 35 سالہ سجاول ان کے ماموں کے بیٹے ہیں۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کا موقف
28 ستمبر کو ہونے والے اس واقعے کے چند گھنٹوں بعد شہید بے نظیر آباد پولیس اور پاکستان رینجرز سندھ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ’رینجرز اور پولیس کا سکرنڈ میں مشترکہ آپریشن خفیہ ادارے کی جانب سے شرپسند اور جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کی اطلاع پر کیا گیا۔‘
اس بیان میں کہا گیا: ’انتہائی مطلوب ملزمان کے پاس بارودی مواد اور اسلحے کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ رینجرز اور پولیس کو دیکھتے ہی شرپسند عناصر نے حملہ کر دیا۔ حملے کے نتیجے میں رینجرز کے چار جوان زخمی ہو گئے۔ پولیس اور رینجرز کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور جان سے گئے۔‘
بیاں میں یہ واضح نہیں کہا گیا کہ ’شرپسند عناصر‘ نے کس طرح حملہ کیا اور نہ ہی یہ واضح طور پر کہا گیا کہ گاؤں والوں نے فورسز پر فائرنگ کی۔ گاؤں والوں نے چار افراد کی لاش رکھ کر بعد میں احتجاج کیا، جب کہ رینجرز کے بیان میں کہا گیا کہ تین افراد کی اموات ہوئی ہیں۔
نگران وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر حارث نواز نے اپنے بیان میں کہا کہ ’گاؤں میں خود کش بمبار کی اطلاع پر پولیس و رینجرز نے مشترکہ طور پر کارروائی کی۔ رینجرز کی فائرنگ سے دو مشتبہ افراد مارے گئے۔ جب کہ ملزمان کی فائرنگ سے چار رینجرز اہلکار زخمی ہوئے۔‘
مگر پولیس، رینجرز اور وزیر داخلہ کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ ’خود کش بمبار‘ کی موجودگی کی اطلاع پر ہونے والے اس کارروائی کے دوران خودکش جیکٹ یا کوئی ہتھیار برآمد کیے گئے یا نہیں؟
واقعے کے بعد گاؤں کے رہائشوں نے چاروں لاش قومی شاہراہ پر رکھ کر 20 گھنٹوں سے زائد وقت تک احتجاجی دھرنا دیا۔
احتجاج کے بعد دائر ہونے والی ایف آئی آر میں کسی کا نام لکھنے کے بجائے ’پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں‘ کو نامزد کیا گیا۔ ایف آئی آر میں انسداد دہشتگردی کی دفعات بھی شامل نہیں کی گئی۔
اس سلسلے میں پولیس کا موقف جاننے کے لیے سینیئر سپرٹیڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) شہید بینظیر آباد کیپٹن (ر) حیدر رضا کو کئی بار فون کیا گیا تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔
فائرنگ میں مرنے ہونے والوں کے خلاف کسی مقدمے سے متعلق جاننے کے لیے جب ماڑی جلبانی تھانے کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) آفتاب احمد شر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’مرنے والے چاروں افراد کے خلاف ہمارے تھانے میں کوئی مقدمہ نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم شہید بے نظیر ضلع کی ضلعی پولیس سے معلومات لے رہے ہیں کہ ان کے خلاف کسی اور تھانے پر تو مقدمہ نہیں۔
’اس میں کچھ وقت لگے گا۔ جس کے بعد ہی بتایا جاسکے گا کہ ان چاروں افراد کے خلاف مقدمے تھے یا نہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ واقعے کی ایف آئی آر دائر ہونے کے بعد کوئی گرفتاری ہوئی ہے یا نہیں تو ایس ایچ او آفتاب احمد شر نے کہا: ’تاحال کوئی گرفتاری نہیں ہوسکی ہے کیوں کہ مقدمے میں مطلوب ملزم نامعلوم ہیں، اس لیے کچھ معلومات کے بعد ہی گرفتاریاں کیا جائیں گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی موقف
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے نگران وزیر داخلہ سندھ بریگیڈیئر حارث نواز کے مطابق خفیہ اداروں نے گاؤں ماڑی جلبانی میں خودکش بمبار کی موجودگی کی اطلاع دی، جس پر یہ کارروائی کی گئی۔
بریگیڈیئر حارث نواز نے کہا: ’جب خفیہ اداروں کو یہ اطلاع ملی اس کے دوسرے دن عید میلاد النبی تھا۔ اگر یہ خود کش بمبار عید میلاد النبی کے کسی جلسے پر حملہ کر دیتا تو ایسے میں کیا ہم کارروائی نہ کرتے؟ اس سے پہلے بھی فورسز نے خفیہ اداروں کی اطلاع پر کامیاب چھاپے مارے اور ملزمان کو گرفتار کیا۔
’یہ گاؤں والے فورسز سے تعاون کرتے اور پر امن طریقے سے گاؤں کی تلاشی دیتے تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ مگر جب فورسز وہاں پہنچی تو گاؤں کے لوگوں نے فائرنگ کے ساتھ ڈنڈوں، پتھروں اور کہاڑیوں سے اہلکاروں پر حملہ کردیا۔ اس کے بعد مجبوراً فورسز کو جوابی کارروائی کرنی پڑی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ اس کارروائی کے دوران خود کش جیکٹ یا کوئی ہتھیار برآمد کیا گیا؟ اس کے جواب میں بریگیڈیئر حارث نواز نے کہا: ’گاؤں والوں کی مزاحمت اور فوسرز پر حملے کے باعث کوئی ہتھیار یا کوئی چیز برآمد نہیں کرسکے۔ گاؤں کا ایک رہائشی کلہاڑی سے صوبیدار پر حملہ آور ہوا۔ ایسے میں جوانوں کو نقصان سے بچانے کے لیے مزید کارروائی کے بجائے فورسز وہاں سے نکل آئیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ مرنے والے افراد کے خلاف جرائم کا ریکارڈ تو بظاہر نہیں ہے، تو جواب میں بریگیڈیئر حارث نواز نے کہا ماضی میں ایسا بھی ہوتا رہا ہے کہ نئے لوگوں کو حملے کے لیے تیار کیا گیا ہو اور ان پر کوئی کیس نہیں تھا۔
گاؤں والوں کی جانب سے ’پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں‘ کے خلاف دائر ایف آئی آر کے تحت تاحال کوئی گرفتاری ہوئی ہے؟
اس سوال پر بریگیڈیئر حارث نواز نے کہا: ’اس واقعے پر اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی بنائی گئی ہے جو جلد رپورٹ دے گی، جس کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔‘
گاؤں ماڑی جلبانی کہاں واقع ہے؟
ضلع شہید بے نظیر آباد کے شہر سکرنڈ سے مغرب کی جانب تقریباً 10 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سندھ واقع ہے۔ دریائے سندھ کے حفاظتی بند اور جنگل کے درمیان گاؤں ماڑی جلبانی ہے۔ دریا کی دوسری جانب مغرب میں معروف سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کا آبائی گاؤں سن واقع ہے۔
ماڑی جلبانی گاؤں کے رہائشی عزیز جبانی کے مطابق: ’یہ ایک بڑی آبادی والا گاؤں ہے جس میں پانچ ہزار گھرانے اور تقریباً 25 ہزار آبادی ہے۔ ‘
عزیز جلبانی کے مطابق ماضی میں اس گاؤں کو ٹاؤن کمیٹی کا درجہ دینے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا جس پر تاحال عمل نہیں ہوسکا ہے۔ گاؤں میں دو ہائی سکولز، سول ہسپتال اور تھانہ ہیں۔ آبادی کی اکثریت کھیتی باڑی اور مویشی پالتی ہے۔
’گاؤں کی 80 فیصد آباد جلبانی برادری کی ہے۔ جب دیگر برادریاں بشمول ملاح، سومرو، راہو اور دیگر رہائش پذیر ہیں۔‘
سندھ بار کونسل کے وکلا کا احتجاج
واقعے کے خلاف ہفتے کو صوبے کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ جب کہ سندھ بار کونسل کے کال پر وکلا نے کراچی کی تمام عدالتوں میں کیوں کا بائیکاٹ کرکے احتجاج کیا گیا۔
شام کو مختلف قوم پرست جماعتوں کی جانب سے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ حیدرآباد، جامشورو، دادو، پھلجی سٹیشن، سن اور دیگر شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔