لاہور کے علاقے شیرا کوٹ کے 27 سالہ مظہر علی نے رواں ماہ خود کو مغوی ظاہر کر کے اپنے خاندان سے 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کر ڈالا۔
تاہم پولیس تفتیش کے دوران منگل کو مظہر علی تک پہنچ گئی اور اب وہ پولیس کی تحویل میں ہیں۔
ڈی ایس پی انجم توقیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چند روز قبل شیرا کوٹ سے اغوا ہونے والے 27 سالہ مظہر علی کے اغوا کا معمہ حل ہو گیا ہے۔ ’مظہر علی خود اپنا اغوا کار نکلا۔‘
انجم توقیر نے بتایا کہ ’خود ساختہ مغوی اپنے بھائی کے ساتھ مل کر سونے کا کاروبار کرتے تھے۔ کاروبار کے دوران کچھ نقصان ہوا اور مظہر پر ادھار چڑھ گیا جسے چکانے کے لیے انہوں نے یہ سارا ڈرامہ رچایا۔‘
ڈی ایس پی انجم توقیر کے مطابق ’مظہر اپنے ایک ساتھی خورشید کے ساتھ رحیم یار خان کے علاقے صادق آباد چلا گیا اور وہاں سے انہوں نے مختلف جعلی سموں سے گھر والوں کو فون کر کے 20 لاکھ روپے تاوان کا مطالبہ کیا۔‘
پولیس کے مطابق مظہر سمجھتا تھا کہ ’ان کا بھائی انہیں پیسے بھیج دے گا جس سے وہ ادھار بھی اتار دے گا اور اپنے باقی معاملات بھی سیدھے کر لے گا، بھائی نے ابھی پانچ لاکھ بھیجے تھے اور باقی پیسے بھیجنے تھے۔‘
انجم توقیر کے مطابق ’مظہر کے دوست نے ان کی کچھ ویڈیوز بھی بنائیں جس میں انہیں رسیوں سے بندھا دکھایا گیا اور ساتھ ہی ان پر کسی کو بندوق تانے کھڑا بھی دکھایا گیا تاکہ گھر والوں کو ڈرایا جاسکے اور انہیں یقین دلایا جا سکے کہ مظہر واقعی میں اغوا ہوئے ہیں۔‘
انجم توقیر کے مطابق ’گھر والے اس جھانسے میں آگئے اور خوساختہ مغوی ان سے مختلف بینک اکاؤنٹس اور موبائل کیش سروسز کے ذریعے پانچ لاکھ منگوانے میں کامیاب بھی ہو گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ مظہر کو بازیاب کروانے کے لیے باقائدہ ایک ٹیم تشکیل دی گئی تھی جس نے مظہر کو ڈیٹا بیس اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے رحیم یار خان کے علاقے سے ڈھونڈ نکالا اور جب ٹیم وہاں پہنچی تو مظہر مزے سے چار پائی پر سویا پڑا تھا۔ ’یہاں اس کا بھانڈا پھوٹ گیا کہ اس اغوا کا مرکزی کردار اور ہدایت کار وہ خود ہی تھا۔‘
انجم توقیر کے مطابق مظہر کے بھائی نے ان کے اغوا کے بعد اغوا برائے تاوان کی ایف آئی آر درج کروائی تھی لیکن اب انہوں نے ان کے مل جانے کے بعد ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریز کیا ہے البتہ مظہر کو بدھ کو لاہور کی ایک مقامی عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ 1860 کے سیکشن 182 کی معمولی سی کارروائی ہو گی۔
سیکشن 182 کیا ہے؟
پاکستان پینل کوڈ 1860 کی دفعہ 182 کے تحت کسی شخص پر جان بوجھ کر جھوٹا مقدمہ درج کرنے کی صورت میں زیادہ سے زیادہ چھ ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاتی ہیں۔ تاہم یہ دفعہ ناقابل دست اندازی پولیس ہے، یعنی پولیس خود بخود دفعہ 182 کے تحت مقدمہ درج نہیں کر سکتی۔