’ہمارے بچے یہاں پر چھٹی سے میٹرک تک سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اگر پاکستان سے ہمیں نکالا گیا تو افغانستان میں بھی تعلیم نہیں ہے اور یہاں بھی تعلیم سے محروم ہو جائیں گے۔ پاکستانی حکومت اپنے اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔‘
یہ کہنا تھا پشاور کے ’منی کابل‘ یعنی بورڈ بازار میں پھل فروش کرنے والے افغان شہری شیراز کا جو غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزینوں کو واپس بھیجنے کے پاکستان کے فیصلے سے پریشان ہیں۔
شیراز اور ان کے دیگر بہن بھائی کی پیدائش پشاور میں ہی ہوئی ہے اور ان کا ایک بھائی یہاں پر آٹھویں جماعت میں پڑھتا ہے۔
ان کے والد تقریباً 40 سال قبل پاکستان آئے تھے اور اب یہی پر کاروبار کرتے ہیں۔
شیراز نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور پھل فروشی کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔ وہ کابل اور راولپنڈی سے پھل لا کر پشاور کے بورڈ وازار میں فروخت کرتے ہیں۔
انہوں نے پاکستان کی جانب سے حال ہی میں لیے جانے والے فیصلے پر کہا کہ ’اگر پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو نکالا تو کاروبار سمیت بچوں کی تعلیم بھی متاثر ہو گی۔‘
پاکستان کے نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے منگل کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستان میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو یکم نومبر تک کی ڈیڈ لائن دی جا رہی ہے جس کے بعد واپس نہ جانے والے افراد کو ڈی پورٹ کر دیا جائے گا۔‘
نگران وزیر داخلہ کے اس اعلان کے حوالے سے پشاور میں مقیم افغان شہری شیراز کا کہنا تھا کہ ’یہاں پر افغان پناہ گزینوں کے بڑے بڑے کاروبار ہیں جو زیادہ تر پشاور کے مختلف علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور ان کے بچے سکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔‘
شیراز کا کہنا ہے کہ ’اگر ہمیں نکالا گیا تو تعلیم متاثر ہوگی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’افغان پناہ گزینوں میں زیادہ تر ایسے بھی ہیں جو یہاں پر پیدا ہوئے ہیں اور یہیں پر کاروبار بھی کرتے ہیں۔ تو پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے اور جن کے پاس کارڈ نہیں ہیں ان کو کارڈ بنا کر دیں۔‘
پشاور کے بورڈ بازار میں ہی ایک ریسٹورانٹ میں کام کرنے والے عصمت یاسین کا کہنا ہے کہ بطور افغان انہوں نے کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ افغانستان اور پشاور دو الگ جگہیں ہیں، بلکہ وہ پشاور اور افغانستان کو اپنا ہی وطن سمجھتے ہیں۔
گذشتہ تین سال سے پاکستان میں رہنے والے عصمت یاسین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’افغانستان اور پشاور ہمارے لیے ایک ہی گھر ہے کیونکہ میں خود بھی یہاں پر پیدا ہوا اور اب میرے بچے بھی پاکستان میں ہی پیدا ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکومت کو افغان پناہ گزینوں کو نکالنے کے فیصلے پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ یہاں پر افغانوں کے کاروبار ہیں۔ وہ یہیں رہتے ہیں اور یہیں کام کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جو نئے پناہ گزین آئے ہیں اور جن کے پاس کارڈ نہیں ہے تو حکومت پاکستان کو چاہیے کہ ان کے لیے کارڈ بنانے کا بندوبست کرے اور ان کو کارڈ مہیا کیے جائیں۔‘
عصمت یاسین کہتے ہیں کہ ’کارڈ یہاں پر صرف پولیس اور سکیورٹی چیک پوسٹ کے لیے ضروری نہیں بلکہ اگر کسی قسم کا حادثہ ہو جائے یا اگر اپنے بچوں کو کسی سکول میں داخل کروانا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہاں پر اگر ہسپتال بھی جانا ہے تو کارڈ ضروری ہوتا ہے۔‘
پاکستانی حکومت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ( نادرا) کی جانب سے افغان پناہ گزینوں کو ایک کارڈ مہیا کرتی ہے جس کو پروف آپ رجسٹریشن (پی او آر) کارڈ کہتے ہیں۔
یہ کارڈ پاکستانی شناخت کارڈ کی طرز پر ہوتا ہے جس پر ان کی ضروری معلومات یعنی نام، والد کا نام اور پتہ وغیرہ درج ہوتا ہے۔
رجسٹریشن اور یہاں موجود افغان پناہ گزینوں کو کسی قسم کی بھی مدد کی ضرورت ہو تو وہ اس کارڈ کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن پاکستان میں نئے آنے والے افغان پناہ گزین اور ان سے پہلے سے یہاں موجود افغان پناہ گزینوں کے پاس یا تو یہ کارڈ موجود نہیں ہیں یا ان کے کارڈ ایکسپائر ہو چکے ہیں۔
حکومت پاکستان نے کیا فیصلہ کیا ہے؟
حکومت پاکستان نے منگل تین اکتوبر کو ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں تمام غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو یکم نومبر سے نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم کے دفتر سے منگل کو جاری ہونے والے بیان کے مطابق ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے شرکا نے ملکی داخلی سکیورٹی صورت حال کا جامع جائزہ لیا تاکہ ممکنہ چیلینجز سے پائیدار انداز میں نبرد آزما ہوا جا سکے۔
بیان کے مطابق اجلاس کے شرکا نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ تمام مشکلات کے باوجود عوام کی توقعات کے مطابق آئین اور قانون کی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا، بارڈر پر آمدورفت کے طریقہ کار کو ایک دستاویزکی صورت میں منظم کرنا (جس میں بارڈر سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا پردی جائے گی) اورغیر قانونی غیر ملکی افراد کی تجارت اور پراپرٹی کے خلاف سخت کاروائی کرنا شامل ہیں۔
وزیر اعظم ہاؤس کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کے تحت ایک ٹاسک فورس بنا دی گئی ہے جو جعلی شناختی کارڈز، کاروبار اور پراپرٹی کی جانچ پڑتال کرے گی تاکہ غیر قانونی شناختی کارڈ اور املاک کا تدارک کیا جائے۔
وفاقی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق پاکستان میں مجموعی طور 40 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزین آباد ہیں، جن میں 14 لاکھ تک رجسٹرڈ اور باقی غیر رجسٹرڈ ہیں۔
افغان سفارت خانے کا کیا کہنا ہے؟
حکومت پاکستان کے فیصلے پر منگل ہی کو اسلام آباد میں افغان سفارت خانے نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ ’پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کو پکڑنا بند کیا جائے کیونکہ اس سے دونوں ممالک کے مابین تعلقات متاثر ہوں گے۔‘
بیان کے مطابق ’پاکستان کے وعدوں کے باوجود افغان پناہ گزینوں کی پکڑ دھکڑ جاری ہے اور اب تک اسلام آباد اور آس پاس کے علاقوں میں ایک ہزار کے قریب پناہ گزینوں کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں آدھے سے زائد کے پاس ضروری دستاویزات بھی موجود تھیں۔