پاکستان کے تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی واپسی کی تیاریاں جاری ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے واضح کیا کہ ان کی جماعت کے قائد ’انتقام لینے نہیں‘ بلکہ ترقی کے ایجنڈے پر کام کے لیے واپس آ رہے ہیں۔
نواز شریف نومبر 2019 سے لندن میں مقیم ہیں وہ علاج کے لیے ملک سے باہر گئے تھے اور اب لگ بھگ چار سال وہ وطن واپس آئیں گے۔
مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس پہنچیں گے اور لاہور میں مینار پاکستان پر ایک جلسے سے خطاب میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
علاج کے برطانیہ جانے سے قبل انہیں احتساب عدالت کی جانب سے ایک مقدمے میں سزا سنائی گئی تھی اور واپسی پر انہیں اپنے خلاف قائم مقدمات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
گذشتہ مہینے کے اواخر میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے ایک بیان میں میں سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید سمیت دو سابق جج صاحبان پر بھی شدید تنقید کی۔
ان کے اس بیان کے بعد یہ خبریں بھی گردش کرنے لگیں کہ وطن واپسی پر نواز شریف کی سیاسی حکمت علمی کیا ہو گی۔ نواز شریف کے اس بیان کے بعد ان کے بھائی شہباز شریف لندن گئے جہاں ملکی معاملات اور واپسی کے بعد پارٹی کی حکمت عملی پر بات کی گئی۔
جبکہ یہ خبریں بھی منظر عام پر آئیں کہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے حالیہ دورہ لندن کا مقصد پارٹی قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو ’سمجھانا‘ اور بظاہر ’مصالحانہ رویہ‘ اختیار کرنے پر زور دینا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شہباز شریف نے بدھ کو عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا اور اس موقعے پر لاہور میں اپنی جماعت کے کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ ’نواز شریف انتقام لینے نہیں آ رہا ہے، جو کچھ اس کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی، جو کچھ اس کے خاندان کے ساتھ، اس کی پارٹی کے ساتھ اور ملک کو جو برباد کیا گیا اور جنہوں نے کیا۔ نواز شریف نے یہ معاملہ، اپنا مقدمہ اللہ تعالی پر چھوڑا ہے۔‘
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کہہ چکے ہیں کہ سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما نواز شریف کی وطن واپسی سے متعلق قانونی رائے لی جائے گی اور اس معاملے میں ملکی قوانین کے مطابق عمل درآمد کیا جائے گا۔
ملک کی ایک بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف ’پی ٹی آئی‘ کے چیئرمین عمران خان جیل میں ہیں۔ ایک حالیہ انٹرویو میں عمران خان اور ان کی جماعت کے سیاسی مستقبل کے بارے میں نگران وزیراعظم سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ حکومت انتخابات میں غیرجانبداری کو یقینی بنائے گی۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ قطعاً کوئی سختی نہیں برتی جائے گی۔ ’ہاں ان لوگوں کے ساتھ قانون کے مطابق ضرور نمٹا جائے گا، جو منفی سرگرمیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔‘
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں آئندہ عام انتخابات جنوری 2024 کے آخری ہفتے میں کرا دیے جائیں گے۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن نے 26 ستبمر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کہا تھا کہ آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں اور ’الیکشن کمیشن کا کوئی فیورٹ نہیں۔‘
پیپلز پارٹی سمیت کئی بڑی جماعتوں کی طرف سے کمیشن سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ انتخابات میں سب کے لیے ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ یعنی یکساں مواقع ہونے چاہییں۔
الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے بہت سے اقدامات متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ کسی بھی طرح کی انتخابی دھاندلی کو روکا جا سکے۔