حال ہی میں اپنے ملک کا دورہ کرنے والی افغان صحافی ڈیوہ پتنگ کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں جو کچھ ذرائع ابلاغ میں دکھایا جا رہا ہے، اس میں سے سب کچھ سچ نہیں ہے، لہذا شہریوں کو ان پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔
جمعے کو انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں ڈیوہ پتنگ نے کہا کہ وہ ’بیرون ملک مقیم افغان شہریوں پر زور دیں گی کہ وہ ملک کا دورہ کریں اور ذرائع ابلاغ پر یقین نہ کریں۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’ان کے ملک میں بھوک، بے روزگاری اور غربت ہے، جس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے، جو دو سالوں کے دوران لوگوں کے لیے ان چیزوں کا بندوبست نہیں کر پائی۔‘
افغانستان میں سابق صدر اشرف غنی کی حکومت میں سرکاری چینل ریڈیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک کی سپورٹس نشریات کی اینکر ڈیوہ پتنگ نے طالبان کی حکومت آنے کے بعد گذشتہ دنوں پہلی مرتبہ افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے اپنی مختلف تصاویر اور ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کیں۔
انہوں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ افغانستان میں خواتین پر پابندیوں کے حوالے سے کئی باتیں محض افواہیں ہیں، جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے۔
ڈیوہ پتنگ نے افغانستان واپسی پر گاڑی چلانے کی اپنی ویڈیو کے حوالے سے کہا: ’خواتین کے محرم کے ہمراہ گاڑی چلانے پر کوئی پابندی نہیں ہے اور میرے پورے سفر کے دوران میرے والد میرے ساتھ اور کسی نے ہمیں نہیں روکا۔‘
From #Parwan to #Kabul pic.twitter.com/AF6I42fbO2
— Diva Patang (@DivaPatang) September 28, 2023
ڈیوہ پتنگ کون ہیں؟
ڈیوہ پتنگ کا تعلق افغانستان کے صوبہ خوست کے علاقے زدران سے ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اشرف غنی حکومت کے دوران سرکاری چینل ریڈیو ٹیلی ویژن نیٹ ورک (آر ٹی این) کی سپورٹس نشریات کی اینکر رہ چکی ہیں اور ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مختلف قومی اور بین الاقوامی کھلاڑیوں کے انٹرویوز کی تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں۔
ڈیوہ پتنگ فی الحال لندن میں مقیم ہیں اور وہاں کام کر رہی ہیں۔ ان کے انسٹا گرام اکاؤنٹ کی پروفائل کے مطابق وہ پی ایچ ڈی کی امیدوار ہیں، انہیں کرکٹ سے محبت ہے اور وہ ڈیوہ گروپ آف کمپنیز کی سربراہ ہیں۔
ڈیوہ گروپ کی ویب سائٹ کے مطابق یہ گروپ دنیا بھر میں ای کامرس، مینوفیکچرنگ اور ہول سیلنگ کا کام کرتا ہے۔
اپنے انٹرویو کے دوران ڈیوہ پتنگ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ افغانستان میں خواتین کے حقوق اور ان کی تعلیم کے آواز بلند کرتی ہیں اور یہ کام وہ جاری رکھیں گی۔
انہوں نے دوبارہ افغانستان کا دورہ کرنے کا اردہ بھی ظاہر کیا ہے۔