’نیو بالاکوٹ سٹی منصوبہ بے گھر اور بے یارو مددگار متاثرین کے لیے تھا، تاکہ ایک محفوظ جگہ پر سرد و گرم سے بچنے کا ٹھکانہ مل سکے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔‘
یہ کہنا تھا آٹھ اکتوبر 2005 کو ہولناک زلزلے کا نشانہ بننے والے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ میں بالاکوٹ شہر کے محمد خورشید کا، جنہوں نے 18 سال پہلے آنے والی اس قدرتی آفت میں اپنا سگا بھائی کھو دیا تھا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا: ’منصوبے پر کام شروع ہوا، نہ کسی کو محفوظ چھت مل سکی۔ 18 سال سے بالاکوٹ کے رہائشی جستی چادروں کے عارضی مکانوں میں سرد و گرم کی شدت برداشت کر رہے ہیں۔‘
2005 کے شدید زلزلے سے خیبر پختونخوا کے پانچ اضلاع اور پاکستان کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے کئی علاقے متاثر ہوئے تھے، جہاں دسیوں ہزاروں اموات ہوئی تھیں۔
اس زلزلے کے نتیجے میں ضلع مانسہرہ کا شہر بالاکوٹ سب سے زیادہ متاثر ہوا تھا، جہاں کے بیشتر گھر یا عمارتیں زمین بوس ہونے سے نہ بچ سکیں۔
اس وقت کی حکومت نے زلزلے سے متاثر ہونے والی بالاکوٹ کی آبادی کو محفوظ مقام پر رہائش فراہم کرنے کے لیے اس شہر سے 15 کلومیٹر دور بکریاں کے مقام پر ’نیو بالاکوٹ سٹی‘ کے نام سے نیا شہر آباد کرنے کا اعلان کیا تھا، جو تقریباً دو دہائیوں بعد بھی تکمیل سے کوسوں دور ہے۔
کیا بالاکوٹ واقعی فالٹ لائن سے ہٹ گیا ہے؟
محکمہ موسمیات اور زمینی ارتعاش پر ریسرچ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلے سے زلزلے کی شدت اور وقت کا تعین نہیں کیا جا سکتا، تاہم ’فالٹ لائن‘ پر واقع علاقوں میں بار بار زلزلے آنے کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
خیبر پختونخوا میں محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد فہیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ بالاکوٹ ’فالٹ لائن‘ پر ہی موجود ہے اور اس حوالے سے گمراہ کن خبریں پھیلائی جا رہی ہیں، جن سے حقائق نہیں بدلے جا سکتے۔
ان کا کہنا تھا: ’زلزلوں کی فالٹ لائن کبھی ختم نہیں ہوتی، ہمیشہ برقرار رہتی ہے، البتہ ان کی فعالیت کم یا زیادہ ہو سکتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ بالاکوٹ یا کسی دوسرے علاقے کی فالٹ لائن ختم ہو گئی ہے۔ ایسے علاقوں میں چھوٹے بڑے زلزلے آنے کے امکانات ہمیشہ موجود رہتے ہیں۔‘
خیبر پختونخوا میں سائنس و ٹیکنالوجی اور انجینیئرنگ کی چار جامعات نے نومبر 2022 میں ’سائنس ڈائریکٹ‘ ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک ریسرچ پیپر میں بالاکوٹ کو کئی فالٹ لائنز کی گزرگاہ قرار دیا اور اس شہر میں سب سے زیادہ زلزلے آنے کے امکانات ظاہر کیے ہیں۔
بالاکوٹ سے نقل مکانی کیوں نہیں ہو رہی؟
آٹھ اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد بھی بالاکوٹ میں کئی زلزلے محسوس کیے گئے جب کہ ماہرین اس سلسلے میں پیش گوئیاں بھی کرتے رہے ہیں۔
فالٹ لائن پر ہونے اور زلزلوں کی پیش گوئیوں کے باوجود بالاکوٹ کے رہائشی نقل مکانی کے بجائے اسی شہر میں رہنے کو ترجیح دے رہے ہیں، جو پاکستان کے دوسرے حصوں میں بسنے والوں میں سے اکثر کے لیے باعث حیرت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2005 کے زلزلے کے بعد بھی بالاکوٹ کئی زلزلوں کا نشانہ بنا اور ہر ایسا واقعہ رہائشیوں کے لیے خوف و ہراس کا باعث بنا۔
اتفاق ایسا ہے کہ اس سال آٹھ اکتوبر سے محض ایک دن قبل بھی بالاکوٹ میں دو مرتبہ زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے، جس سے مقامی آبادی خوف زدہ ہو گئی۔
محمد خورشید کا کہنا تھا: ’یہ ایک اتفاق تھا کہ آٹھ اکتوبر قریب تھا اور زلزلے آئے، جس سے ہر شخص کے 2005 میں لگے زخم تازہ ہو گئے۔ ایسے میں زلزلہ آنے سے زیادہ خوف پھیل گیا۔‘
جب ان سے دریافت کیا گیا کہ پیش گوئیوں اور خطرات کے باوجود لوگ بالاکوٹ چھوڑنے کو تیار کیوں نہیں تو انہوں نے کہا کہ اکثر لوگ ایسی خبریں بھی اڑاتے ہیں کہ اب بالاکوٹ فالٹ لائن سے نکل گیا ہے، لیکن جب بھی زلزلہ آتا ہے، یہاں کے رہنے والے تذبذب کا شکار ہو جاتے ہیں۔
محمد خورشید کا مزید کہنا تھا بالاکوٹ کے آدھے سے زیادہ باسی محفوظ جگہ پر منتقل ہو کر روزگار کے مواقع چاہتے ہیں۔ ’لیکن ایسا حکومتی تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔
’ہم منتقل ہونا چاہتے ہیں لیکن مالی استطاعت نہیں کہ کہیں اور جا کر بس جائیں۔ دراڑ زدہ مکانوں اور خیموں میں خوف و خطرات کی زندگی گزارنے پر اسی لیے مجبور ہیں۔‘