ہر ادارہ اپنا احتساب کرے اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے: چیف جسٹس

منگل کو ہوئی سماعت میں ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت کو بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

تین اپریل 2023 کی اس تصویر میں سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر وکلا جمع ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس فل کورٹ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہر ادارے کو اپنا احتساب کرنا چاہیے، اس سے پہلے کہ کوئی اور کرے۔

منگل کو ہوئی سماعت میں ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے پر سماعت کو بدھ تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ اب بدھ کے روز اٹارنی جنرل دلائل دیں گے۔

یہ اس کیس کی چوتھی سماعت تھی۔ تیسری سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا تھا کہ وہ اس کیس کی سماعت کو جلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔

توقع کی جا رہی تھی کہ آج سماعت مکمل ہو جائے گی لیکن نہ ہو سکی۔ ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والی سماعت میں 1:30 پر 45 منٹ کا وقفہ کیا گیا۔ جس کے بعد سماعت 3:55 تک سماعت جاری رہی۔

آج سماعت میں ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رولز بنانے کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا ہے مگر قانون سے مشروط کیا گیا ہے.

جسٹس مظاہر نقوی نے فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ وہ کیا ضروریات تھیں جن کی بنیاد پر پارلیمنٹ نے یہ ایکٹ بنایا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی سیاسی جماعت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف ووٹ دیا؟ جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اٹارنی جنرل اس بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں، ایم کیو ایم نے تو حمایت میں ووٹ دیا تھا۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ سب کو خوش رکھنا ہے تو پھر آئینی باتیں نہ کریں۔ جسٹس اعجاز کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ میں مداخلت ہوئی، آپ یہ کیوں نہیں کہتے ہاں مداخلت ہوئی کیونکہ چیف جسٹس اپنا کام نہیں کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ سادہ سی باتیں ہیں آپ کو ہچکچاہٹ کیا ہے؟ کہہ سکتے ہیں ناں اگر یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی، کئی سال کیس نہ لگے اور ہم کہہ دیں ہماری مرضی، ہم کسی کو جوابدہ نہیں؟ 

سماعت کے دوران امریکی عدالتوں کا حوالہ دینے پر چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’ہر کوئی امریکا کی مثال دیتا ہے، وہاں سال میں سپریم کورٹ میں 120 کیسز کا فیصلہ ہوتا ہے، وہاں مقدمات بہت کم ہوتے ہیں ہمارے نظام میں فرق ہے۔

جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ کیسز وہاں بھی ہزاروں میں ہی آتے ہیں.

 سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ کیس کی سماعت کی جسے براہ راست نشر کیا گیا۔

فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

درخواست گزاروں میں سے مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے وکلا کے دلائل مکمل ہو گئے جبکہ اٹارنی جنرل اور دیگر سیاسی جماعتوں کے وکلا آج دلائل دیں گے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آج کیس کی سماعت مکمل ہو جائے گی۔

گذشتہ روز تقریباً آٹھ گھنٹے تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ باقی وکلا کو منگل دن ساڑھے 11 بجے سنا جائے گا۔

پیر کے روز ہونے والی سماعت میں بھی ججز کے متضاد ریمارکس سامنے آئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ رولز نہیں بنا سکتی، نہ ہی رولز بنانے کے لیے قانون سازی کر سکتی ہے۔ موجودہ قانون کے دائرہ کار میں رہ کر رولز میں تبدیلی کا اختیار صرف سپریم کورٹ کے پاس ہے۔

جبکہ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے لیے پابندکرنے کا مطلب ہے کہ موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے۔

اسی طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ چیف جسٹس کو جہاں اختیارات دیےگئے وہ آئین میں درج ہے، چیف جسٹس کو سپریم کورٹ کے سوا کہاں تنہا اختیارات دیے گئے۔

عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے 17 ستمبر 2023 کو پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

18 ستمبر کو اس کیس کی پہلی سماعت ہوئی تھی، تین اکتوبر کو دوسری اور تیسری سماعت نو اکتوبر کو ہوئی۔

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا پس منظر

28 مارچ، 2023 کو وفاقی کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے مسودے کی منظوری دی تھی۔

بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کے بعد صدر عارف علوی کو بھیجا گیا تھا لیکن صدر نے بل پر دستخط کیے بغیر واپس بھجوا دیا۔

صدر پاکستان نے آٹھ اپریل کو بل واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘

بعد ازاں 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرنے کے بعد دوبارہ صدر کو دستخط کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومی اسمبلی سیکریٹریٹ سے 21 اپریل کو جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن گیا تھا۔

تاہم سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے 13 اپریل کو ہی اس ایکٹ کو معطل کر دیا تھا۔

اپریل میں ہی اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں موقف اپنایا گیا تھا ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں، آئین کے آرٹیکل 191 اور 142، 70 اور انٹری 55 فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بنے ہوئے ہیں۔‘

درخواستوں کے مطابق قومی اسمبلی، سینیٹ اور باقی سب کے اپنے رولز ہیں جو انہوں نے خود بنائے، آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی نہیں دیا جا سکتا۔‘

درخواستوں میں مزید کہا گیا کہ ’بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور از خود نوٹس کے معاملے کے حوالے سے معیارات طے کر چکی ہے، یہ قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے۔

’بل بدنیتی پر مبنی ہے، یہ بل آئین کے ساتھ دھوکہ ہے، لہٰذا عدالت بل کو کالعدم قرار دے کر صدر مملکت کو بل پر دستخط سے روکے اور عدالتی کارروائی تک بل کو معطل رکھا جائے۔‘

یہ درخواستیں سینیئر صحافی سمیع ابراہیم اور چوہدری غلام حسین کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔

درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس معاملے پر سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے جبکہ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔

بل کا مسودہ

بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی، اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔

10 اپریل، کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا تھا۔

12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔

13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عمل درآمد روک دیا تھا۔

تاہم 21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان