سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے منگل کو درخواستوں پر سماعت کے موقعے پر وکلا کو مخاطب کرکے ریمارکس دیے کہ جب مارشل لا لگتے ہیں تو تب سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ اس پر بھی سر اٹھایا کریں، اس پر پٹیشن لایا کریں اور کہا کریں کہ ہم اسے نہیں مانتے۔
وکیل عرفان حسن کے دلائل کے دوران جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے ریمارکس تھے: ’آپ حلف کی بات کرتے ہیں تو جب مارشل لا لگتے ہیں تو تب سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ یہاں اس کمرے میں کتنی تصویریں لگی ہوئی ہیں جو اپنا حلف بھول گئے اور آپ بھی سب بھول جاتے ہیں، تب سب ٹھیک ہوتا ہے، لیکن جب پارلیمان کچھ کرے تو اس میں مین میخ نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہاں بھی سر اٹھایا کریں۔ اس پر بھی پٹیشن لایا کریں، کہا کریں ہم اس کو نہیں مانتے۔‘
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے حوالے سے درخواستوں پر سماعت آج (بروز منگل) عدالت عظمیٰ میں جاری ہے، جس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کو آج ہی مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے، جسے براہ راست نشر کیا جا رہا ہے۔ 18 ستمبر کو ہونے والی اس کیس کی گذشتہ سماعت کو بھی پہلی مرتبہ براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا تھا۔
فل کورٹ بینچ میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
کیس آج ختم کرنے کا عندیہ
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اس قانون کا اثر بالخصوص چیف جسٹس اور ان کے دو سینیئر ججز پر ہوگا۔۔۔ کہ ان کے اختیارات کو اگر کم نہیں تو محدود کیا جا رہا ہے تو دوسری طرف یہی اختیار سینیئر ججز میں بانٹا جا رہا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہی بات مستقبل میں ان ججوں پر بھی ہوگی جو چیف جسٹس یا ان کے سینیئر ججز ہوں گا، لہذا ہمیں اس کا خیال رکھنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت سارے ججز متاثر ہوں گے تو بہتر ہے کہ تمام ساتھی سنیں کہ یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ ایک حد تک چیف جسٹس کے اختیارات اور پارلیمنٹ کے اختیارات آمنے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔ ’ہم میں سے کچھ سمجھتے ہیں کہ ایسی بات نہیں ہے اور کچھ سمجھتے ہیں کہ ایسی بات ہے، اچھی طرح سے سننا چاہتے ہیں کہ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں بحث کرتے چلیں جائیں۔‘
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’آج ہماری کوشش ہوگی کہ کیس کا اختتام کرلیں کیونکہ ایک ہی کیس کو لے کر نہیں بیٹھ سکتے۔ آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے پاس کتنے مقدمے (زیر التوا) ہیں تو وہ بڑھتے جائیں گے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے فریقین کے وکلا کو مخاطب کرکے کہا کہ ’ہم آپ کو یقینی سنیں گے لیکن اگر پھر بھی کچھ رہ گیا ہو تو آپ اپنے دلائل تحریری طور پر جمع کروا سکتے ہیں۔‘
اس کے ساتھ ہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکلا کو مخاطب کر کے تجویز دی کہ اگر بہتر ہو تو پہلے اٹارنی جنرل کے دلائل سن لیے جائیں۔
جس کے بعد ایڈووکیٹ خواجہ طارق رحیم نے بات کرنے کی اجازت مانگی اور اپنے دو پوتوں کا حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے انہیں ٹوک دیا اور کہا کہ ’یہ بات بالکل غیر ضروری ہے۔ میں نہیں سنوں گا۔ آپ یہ باتیں نہ کریں۔‘
چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ آپ کے تحریری دلائل ہم نے دیکھ لیے ہیں۔ ہم آپ کو موقع دیں گے۔
اس کے بعد ایک وکیل نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پرسیجر ایکٹ کو چیلنج کیا ہے اور جو بل چیلنج کیا گیا ہے، میں اسے علیحدہ سمجھتا ہوں، لہذا اسے الگ الگ سن لیا جائے،‘ تاہم قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں وہیں روکتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس وقت صرف یہ پوچھا ہے کہ اٹارنی جنرل کے دلائل پر وکلا کو اعتراض تو نہیں، لہذا صرف یہی بات کی جائے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس کا ایک وکیل حسن عرفان سے بھی مکالمہ ہوا، جنہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ سماعت پر سفر کی وجہ سے یہاں نہیں تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کے موکل کہاں ہیں؟ جس پر انہوں نے درخواست گزار مدثر حسن کا نام لیتے ہوئے جواب دیا کہ وہ ایک کیس کے سلسلے میں پشاور گئے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’یہ تو اہمیت ہے کیس کی۔ ایک دن وکیل نہیں ہے تو دوسرے دن پٹیشنر نہیں ہے۔‘
ایڈووکیٹ اکرام چوہدری کے دلائل
اس کے بعد درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری نے دلائل کا آغاز کیا، تاہم شروع میں ہی چیف جسٹس نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’آپ سارا ایکٹ نہ پڑھیں وہ ہم پڑھ چکے ہیں۔ آپ نے کوئی ایک شق پڑھنی ہے تو پڑھ لیں۔‘
اکرام چوہدری نے ایکٹ کا سب سے پہلا پیراگراف پڑھا اور دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون ’مخصوص وقت اور افراد کے لیے‘ بنایا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کا سیکشن تین، آئین اور سپریم کورٹ رولز کے متصادم ہے۔ سیکشن تین کے تحت 184/3 کا ہر معاملہ تین رکنی کمیٹی کے پاس جانا خلاف آئین ہے، لہذا پارلیمان نے اختیارات کی آئینی تقسیم کی خلاف ورزی کی ہے۔
اکرام چوہدری نے دلائل کے دوران اس قانون کو آئین کے آرٹیکل 239 سے بھی متصادم قرار دیا، جس کے تحت پارلیمنٹ صرف دو تہائی اکثریت سے ہی آئینی ترمیم کر سکتی ہے۔
انہوں نے اس ایکٹ اور پارلیمان کے کردار کے حوالے سے میڈیا میں رپورٹ ہونے والی کچھ خبروں کا حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ اپنے دلائل کی بنیاد اخبار میں شائع ہونے والی خبروں کو بنا رہے ہیں؟ ایک سینیئر وکیل ہوتے ہوئے آپ ایک اخبار کی خبر پر تکیہ کر رہے ہیں، جو ہو سکتا ہے کہ درست نہ ہو۔
اکرام چوہدری نے جواب دیا کہ ’ہمارے پاس پارلیمنٹ کی کارروائی کا ریکارڈ نہیں ہے۔‘ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جواب دیا کہ ’آپ نے سپیکر کو تحریری طور پر کارروائی کے ریکارڈ کے لیے درخواست کی؟‘
وکیل اکرام چوہدری کی جانب سے واضح جواب نہ ملنے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارے ہیں۔ اگر آپ نے اپنے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کے لیے درخواست نہیں کی تو یہ دلیل مت دیں۔
چیف جسٹس نے اکرام چوہدری کو مخاطب کرکے ریمارکس دیے کہ ’اپنے کیس تک خود کو محدود رکھیں۔‘
اکرام چوہدری نے کہا کہ ’یہ مقدمہ میرا ذاتی نہیں، پوری قوم کا ہے۔‘ تاہم چیف جسٹس نے ان سے کہا کہ ’آپ قوم کے نمائندے ہیں، نہ ہی ہم۔ اس لیے اپنی بات کریں۔‘
وکیل اکرام چوہدری نے ایک مرتبہ پھر اسی خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیراعظم چاہتے تھے چیف جسٹس کو پارلیمنٹ میں طلب کیا جائے، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے انہیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’جن کے متعلق بات کر رہے ہیں انہیں آپ نے فریق ہی نہیں بنایا ہوا۔ عدالت کو سیاسی تقریر کے لیے استعمال نہ کریں۔‘
ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے مزید کہا کہ جب یہ کہا گیا کہ اس ایکٹ سے کوئی چیز متاثر نہیں ہوگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پارلیمان اپنے کردار سے نکل کر عدلیہ کی حدود میں داخل ہوگئی۔
اس موقعے پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ’جب آپ عدلیہ کی آزادی بات کرتے ہیں تو کیا یہ آزادی ازخود نایاب چیز ہے یا یہ لوگوں کے لیے ہوتی ہے؟ لوگوں کے اختیارات کے لیے ہوتی ہے؟ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہے کہ اس کا ہر صورت دفاع کرنا ہے؟ کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو عوام و خاص کے مسائل کو آزادنہ طور پر نہیں سنا اور تعین کیا جاسکتا ہے۔‘
اکرام چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کا آرٹیکل سات ریاست کی تعریف واضح کرتا ہے، عدلیہ اس میں شامل نہیں ہے۔
اس موقعے پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’اگر کل پارلیمان یہ قانون بنا دے کہ بیواؤں کے مقدمات کو ترجیح دی جائے، تو کیا یہ عدلیہ میں مداخلت ہو گی؟‘
انہوں نے ریمارکس دیے کہ قانون سازی سے اگر عدلیہ لوگوں کو انصاف دینے کا راستہ ہموار اور دشوار کر رہی ہے تو یہ بتائیں؟ کیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اور سے بھی ہے؟
ایڈووکیٹ اکرام چوہدری نے اپنے دلائل کے دوران اے کے بروہی کی کتاب ’فنڈا مینٹل لا آف پاکستان‘ کا حوالہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ نے جو جملہ پڑھا میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس میں عدلیہ کو حکومت کا ڈیپارٹمنٹ لکھا گیا، ہم تو حکومت کا حصہ نہیں ہیں۔
اس موقعے پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ بروہی صاحب نے پہلے مارشل لا کو قانونی کیے جانے پر لکھا؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ یہ بروہی صاحب کا اپنا خیال نہیں انہوں نے کسی بات کی سپورٹ میں لکھا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے مزید کہا کہ جس کتاب کا آپ حوالہ دے رہے ہیں یہ پہلے مارشل لا کے بعد لکھی گئی، سپریم کورٹ نے اس مارشل لا کی توثیق کی۔ کیا یہ کتاب مارشل لا کے اثر میں لکھی گئی تھی؟
اسی طرح جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ کتاب مئی 1958 میں لکھی گئی اور مارشل لا اکتوبر 1958 میں لگا۔ اس کتاب میں جوڈیشری ڈیپارٹمنٹ کا لفظ امریکی قانون کا حوالہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیس میں سوال اچھے یا برے قانون کا نہیں، سوال پارلیمان کی اس قانون کو بنانے کی اہلیت کا ہے۔
جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ 1973 کے آئین کے تحت بتائیے کہ کہاں قانون سازی کا اختیار ختم ہوتا ہے۔ پارلیمان کے اختیارات کا آئین سے ہی بتایا جانا ہے۔
جسٹس جمال خان مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ صرف دو باتیں بتائیں کہ پارلیمان کو اس قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں اورفلاں شق سے یہ قانون متضاد ہے تو بات ختم۔
جس پر اکرام چوہدری نے جواب دیا کہ پارلیمان کے اختیار میں جو نہیں تھا، پارلیمان نے وہ قانون بنایا۔
اس موقعے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو دلائل کے لیے 45 منٹ دیے گئے، اگر ضرورت ہو تو آپ تحریری جواب دے دیں۔
جس پر وکیل اکرام چوہدری نے کہا کہ وہ مزید دلائل تحریری طور پر لکھ کر دے دیں گے۔
وکیل حسن عرفان کے دلائل
اکرام چوہدری کے بعد وکیل حسن عرفان نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ یہ بل صدر کو بھیجا گیا، انہوں نے اس پر اعتراض اٹھایا، جس کے بعد پریس ریلیز جاری کی گئی، تاہم چیف جسٹس نے انہیں روک دیا اور کہا کہ ’آپ پریس ریلیز پر آگئے ہیں۔‘
انہوں نے وکیل حسن عرفان کو دستاویزات پیش کرنے سے بھی روک دیا اور کہا کہ کیس سے متعلق اپنے دلائل دیں۔
وکیل حسن عرفان نے کیس کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل دیے اور کہا کہ قانون سپریم کورٹ کے اختیارات ایک کمیٹی کو دے رہا ہے، جو عدلیہ کے معاملات نہیں ہوں گے بلکہ انتظامی معاملات ہوں گے۔
جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ’کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ اختیار چیف جسٹس کا نہیں سپریم کورٹ کا ہے؟‘
اس موقعے پر جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے اختیارات کسی ایک کو دیے جا سکتے ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے اختیارات کس قانون کے تحت دوسرے کو دیے جا سکتے ہیں؟
اس موقعے پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ’مقدمات کو مقرر کرنا اور بینچز کی تشکیل دینا سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات ہیں۔ اس قانون نے بظاہر چیف جسٹس سے اختیارات لے کر دو مزید ججز کو دے دیے یعنی تین ججوں کی کمیٹی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیارات کو کچھ تحفظ حاصل ہے۔
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو وکیل حسن عرفان نے دوبارہ دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان نے قانون سازی کی آڑ میں دراصل آئین میں ترمیم کر دی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سوال پوچھا گیا تھا قانون کس بنیادی حق سے متصادم ہے تو انصاف بنیادی حق ہے جس کا تعلق تمام بنیادی حقوق سے ہے۔
وکیل حسن عرفان کے مطابق آرٹیکل 184 تین خاموش ہے کہ کون سا خاص حق متاثر ہو گا تو نوٹس ہو سکے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا انصاف تک رسائی کے لیے قانون سازی نہیں ہوسکتی؟
ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ درخواست گزار اس کیس سے کیسے متاثرہ فریق ہے؟ جس پر وکیل عرفان حسن نے جواب دیا کہ ’میرے موکل وکیل ہیں اور نظام انصاف کی فراہمی کے سٹیک ہولڈر ہیں۔‘
وکیل عرفان حسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان سپریم ضرور ہے لیکن آئین کے بھی تابع ہے۔ چیف جسٹس، وزیراعظم اور صدر تینوں نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے۔
جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حلف میں آئین کے ساتھ قانون کا بھی ذکر ہے، اسے مدنظر رکھیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا: ’آپ حلف کی بات کرتے ہیں تو جب مارشل لا لگتے ہیں تو تب سب ہتھیار پھینک دیتے ہیں۔ یہاں اس کمرے میں کتنی تصویریں لگی ہوئی ہیں جو اپنا حلف بھول گئے اور آپ بھی سب بھول جاتے ہیں، تب سب ٹھیک ہوتا ہے، لیکن جب پارلیمان کچھ کرے تو اس میں مین میخ نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہاں بھی سر اٹھایا کریں۔ اس پر بھی پٹیشن لایا کریں، کہا کریں ہم اس کو نہیں مانتے۔‘
پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا پس منظر
28 مارچ، 2023 کو وفاقی کابینہ کے ایک خصوصی اجلاس میں عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا تھا، جس کے بعد وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کو ریگولیٹ کرنے کے مسودے کی منظوری دی تھی۔
بل کو قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کروانے کے بعد صدر عارف علوی کو بھیجا گیا تھا لیکن صدر نے بل پر دستخط کیے بغیر واپس بھجوا دیا۔
صدر پاکستان نے آٹھ اپریل کو بل واپس بھجواتے ہوئے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘
بعد ازاں 10 اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بل منظور کرنے کے بعد دوبارہ صدر کو دستخط کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔
قومی اسمبلی سیکرٹریٹ سے 21 اپریل کو جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق چیف جسٹس کے از خود نوٹس اور بینچ تشکیل دینے کا اختیار کم کرنے کا بل باقاعدہ قانون بن گیا تھا۔
تاہم سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے 13 اپریل کو ہی اس ایکٹ کو معطل کر دیا تھا۔
اپریل میں ہی اس بل کے خلاف سپریم کورٹ میں کئی آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں اس بل کو ’بدنیتی پر مبنی‘ اور ’آئین کے ساتھ دھوکہ‘ قرار دیتے ہوئے موقف اپنایا گیا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 191 اور 142، 70 اور انٹری 55 فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ کے تحت پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے رولز 1980 سے بنے ہوئے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
درخواستوں کے مطابق: ’قومی اسمبلی، سینیٹ اور باقی سب کے اپنے رولز ہیں جو انہوں نے خود بنائے، آئین کے آرٹیکل 184/ 3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی نہیں دیا جا سکتا۔
درخواستوں میں مزید کہا گیا تھا کہ بینچ بنانے کا اختیار چیف جسٹس کا ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلوں اور از خود نوٹس کے معاملے کے حوالے سے معیارات طے کر چکی ہے، یہ قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہے، لہٰذا عدالت بل کو کالعدم قرار دے کر صدر مملکت کو بل پر دستخط سے روکے اور عدالتی کارروائی تک بل کو معطل رکھا جائے۔
یہ درخواستیں سینیئر صحافی سمیع ابراہیم اور چوہدری غلام حسین کی جانب سے دائر کی گئی تھیں۔
درخواست میں وفاقی حکومت، صدر مملکت اور دیگر کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس معاملے پر سماعت کرنے والے بینچ کی سربراہی سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کر رہے تھے جبکہ بینچ کے دیگر ججوں میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل تھے۔
بل کا مسودہ
بل کے مسودے کے مطابق سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس کا فیصلہ کریں گے، از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق دینے کی تجویز دی گئی، اپیل دائر ہونے کے چودہ روز کے اندر سماعت کے لیے مقرر کرنا ہو گی۔
10 اپریل، کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی طرف سے پیش کیا گیا سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل متفہ رائے سے منظور کیا گیا تھا۔
12 اپریل کو وفاق حکومت کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات سے متعلق منظورہ کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
13 اپریل کو سپریم کورٹ نے چیف جسٹس آف پاکستان کے اختیارات کو کم کرنے سے متعلق ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ پر تاحکم ثانی عملدرآمد روک دیا تھا۔
تاہم 21 اپریل کو عدالتی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) بل 2023 پارلیمنٹ کے بعد صدر سے دوبارہ منظوری کی آئینی مدت گزرنے پر از خود منظور ہوکر قانون کی شکل اختیار کرگیا تھا۔