عالمی ادارہ صحت کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد اپنی جان گنواتے ہیں اور ان میں زیادہ تعداد کم اور متوسط آمدن کے افراد ہیں جو اس آلودگی کا زیادہ سامنا کرتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی 10 اموات میں سے ایک موت کی وجہ آلودگی ہے۔
پاکستان میں ہر سال سوا لاکھ سے زیادہ افراد فضائی آلودگی سے متعلق بیماریوں کے باعث اپنی جان کھوتے ہیں۔
زیادہ دیر تک فضائی آلودگی میں سانس لینے سے سانس کی تکلیف، پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں، حلق کی انفیکشن، دل کی بیماریاں اور اوسط عمر میں کمی واقع ہوتی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق لاہور میں سموگ کی سطح میں اضافے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کی روک تھام کے لیے کئی اقدامات کا اعلان کیا ہے جبکہ ماحولیاتی ماہرین نے اس صورت حال کو انسانی جانوں کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔
انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی) شکاگو کے تازہ ترین ایئر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی پنجاب میں متوقع عمر میں تقریباً چار سال کی کمی کرتی ہے۔
سوئٹزرلینڈ کے ماحولیات پر کام کرنے والے تھنک ٹینک آئی کیو ایئر کے مطابق لاہور کی ہوا میں آلودگی ’خطرناک‘ ہے۔
کھانوں کے لیے پاکستان کا دارالحکومت کہلانے والا شہر لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار دیا گیا ہے اور یہ اعزاز اس وقت لاہور کو ملا جب ابھی سموگ کا آغاز بھی نہیں ہوا۔
لاہور میں آلودگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہوا کی کوالٹی کے حوالے سے گائیڈ لائنز سے 30 گنا زیادہ آلودگی لاہور میں ہے۔
تو اب لاہوریے کیا کریں؟ سب سے پہلے تجویز کیا گیا ہے کہ لاہور کے باسی وہ کریں جو انہوں نے شاید کووڈ 19 کے عروج پر بھی نہیں کیا۔ یعنی ماسک پہن کر باہر نکلیں۔
دوسرا گھروں کے اندر فضا کو صاف کرنے کے لیے air purifier کا استعمال کریں۔ گھروں کے دروازے کھڑکیاں بند رکھیں اور کھلی فضا میں ورزش کرنے سے اجتناب کریں۔
لاہور کی فضا میں اتنی آلودگی کہ اس کو خطرناک قرار دے دیا جائے کب سے ہے، یہ تو کہنا مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں فضا میں آلودگی کو جانچنے کا آغاز ہی 2017 میں ہوا۔
یہ کام بھی حکومت وقت نے نہیں بلکہ عام افراد نے شروع کیا اور جب پہلی بار آلودگی کے حوالے سے رپورٹ سامنے آئی تو اس پر بات ہونی شروع ہوئی۔
آسان الفاظ میں عالمی سطی پر ایئر کوالٹی انڈیکس اگر 50 یا اس سے کم ہو تو فضا محفوظ قرار دی جاتی ہے۔ 100 اور 150 کے درمیان بچوں اور دل کے عارضے میں مبتلا افراد کے لیے ممکنہ خطرہ ہے۔ 150 سے زیادہ سب کے لیے مضر ہے اور اگر انڈیکس 300 سے تجاوز کر جائے تو اس کو خطرناک قرار دیا جاتا ہے۔
لیکن پاکستان میں نہیں۔ جہاں عالمی ادارے فضا میں آلودگی کو نہایت مضر صحت قرار دیتے ہیں وہیں پنجاب کی اے کیو آئی نظام اس کو moderately polluted یعنی تھوڑی سے آلودگی قرار دیتی ہے۔
آج ہی کی بات لے لیجیے۔ عالمی معیار کے مطابق لاہور میں آلودگی خطرناک حد تک ہے جب کہ پنجاب کے اے کیو آئی کے مطابق ’خراب‘ ہے، یعنی زیادہ دیر تک باہر رہنے سے لوگوں کو شاید سانس لینے میں تکلیف ہو اور دل کے عارضے میں مبتلا افراد کو بے چینی محسوس ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سموگ کا سیزن اکتوبر سے دسمبر تک ہوتا ہے جس دوران کم معیار کا ایندھن استعمال ہوتا ہے، بے انتہا آلودگی اور فصلوں کو آگ لگائی جاتی ہے جس کے باعث فضائی آلودگی انتہائی زیادہ ہو جاتی ہے۔
برطانوی طبی جرنل لینسٹ کے مطابق پاکستان میں 22 فیصد اموات آلودگی کے باعث ہوتی ہیں اور ان میں سے اکثریت کی وجہ فضائی آلودگی ہے۔
کم آمدنی کے لوگ جیسے کہ مزدور وغیرہ اس فضائی آلودگی کی زد میں زیادہ آتے ہیں کیونکہ ان کے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ وہ سارا سارا دن کھلی فضا میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔
ایک طرف روزگار کمانے کے لیے فضائی آلودگی میں کام کرنا اور دوسری جانب طبی سہولیات تک آسانی سے رسائی نہیں ہوتی۔ یعنی صرف وہ جن کو طبی سہولیات تک رسائی ہے اور وہ اس کا خرچ برداشت کرسکتے ہیں وہی فضائی آلودگی کے مضر اثرات سے بچ پاتے ہیں۔
فضائی آلوگی پر قابو پانا آج کی نگران حکومت کی اولین ترجیح ہے لیکن اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانا بہت اہم ہے۔
حکومت کو سب سے پہلے پورے ملک میں فضائی آلودگی کو جانچنے کے لیے سٹیشنز قائم کرنے کی ضرورت ہے اور غیر معیاری ایندھن کے استعمال، دھواں دینے والی گاڑیوں، اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ کی کڑی نگرانی ہنگامی بنیادوں پر کرنے کی ضرورت ہے۔
اور یہ اقدامات صرف سموگ کے سیزن کے دوران ہی نہیں بلکہ پورا سال کرنے کی ضرورت ہے۔