اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیر کو سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست ضمانت اور اخراج مقدمہ پر سماعت مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس عامر فاروق نے فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سماعت کے آغاز میں درخواست گزار کے وکیل سلمان صفدر اور سپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی روسٹرم پر آ گئے۔ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تھے جبکہ گزشتہ سماعت پر راجہ رضوان عباسی کے دلائل مکمل نہیں ہو سکے تھے۔
ایف آئی اے کے سپیشل پراسکییوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ’قابل دست اندازی جرم پر ایف آئی آر کا اندراج بنتا ہے، وفاقی حکومت نے سیکرٹری داخلہ کو کمپلینٹ داخل کرنے کی منظوری دی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت درج مقدمے میں دس سال سے کم سزا والی دفعہ میں ضمانت ہو سکتی ہے، دس سال سے زائد سزا والی سیکشن لگی ہو تو وہ ناقابل ضمانت ہے۔‘
سپیشل پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے مقدمہ اخراج کی درخواست پر بھی دلائل کا آغاز ساتھ ہی کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ’درخواست گزار کے وکیل نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن فائیو کی درست تعریف یا تشریح نہیں کی، عمران خان نے سائفر کی معلومات پبلک تک پہنچائیں جس کے وہ مجاز نہیں تھے۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’سائفر آنے کے رولز آف پریکٹس ہوں گے، کچھ ایس او پیز بنائے ہوں گے؟‘
وکیل استغاثہ نے جواب دیا کہ ’سائفر کی دو کیٹگریز ہوتی ہیں جن میں سے ایک کی کمیونی کیشن کی جا سکتی ہے مگر دوسری کیٹگری کی نہیں، یہ سائفر دوسری کیٹگری کا سیکرٹ ڈاکیومنٹ تھا جس کی معلومات پبلک نہیں کی جا سکتی تھیں۔ سائفر کوڈڈ کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے تاکہ وہ کسی اور کے ہاتھ نہ لگ سکے، ڈی کوڈڈ سائفر کو پبلک کر دیا گیا، کوڈز تین ماہ بعد تبدیل ہوتے ہیں۔ اس جرم کی سزا 14 سال قید یا سزائے موت بنتی ہے۔ لہذا سیکرٹ ڈاکومنٹ پبلک کرنے پر بطور وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل 248 کے تحت استثنیٰ حاصل نہیں۔‘
پیر کے روز ہونے والی سماعت میں کمرہ عدالت میں پی ٹی آئی حامی وکلا کی تعداد تو تھی لیکن اہل خانہ سے کوئی موجود نہیں تھا۔ گزشتہ سماعتوں میں اہلیہ بشریٰ بی بی اور ہمشیرہ حلیمہ خان کمرہ عدالت میں موجود رہی ہیں۔
سائفر کس کس کے پاس آیا؟
وکیل استغاثہ نے بتایا کہ ’میں سائفر کی چین آف کسٹڈی بتا دیتا ہوں، نعمان سائفر اسسٹنٹ ہے جس نے سائفر وصول کیا اور پھر ڈپٹی ڈائریکٹر عمران ساجد کے حوالے کیا، سائفر پھر حسیب بن عزیز اور اس وقت کے فارن سیکرٹری سہیل محمود کے پاس گیا، سائفر کو اس کے بعد پی ایم آفس کے سائفر آفیسر شاہین قیصر اور ڈپٹی سیکرٹری پی ایم آفس حسیب گوہر کے پاس بھجوایا گیا۔ سب سے آخر میں اس وقت کے وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے پاس پہنچا، اعظم خان کے بیان پر تنقید کی گئی، ان کو اس کیس میں کبھی ملزم نہیں بنایا گیا، اعظم خان کا نام اس کیس کے گواہوں کی لسٹ میں شامل ہے، وہ تفتیشی افسر کے سامنے خود پیش ہوئے اور بیان ریکارڈ کرایا۔‘
راجہ رضوان عباسی نے مزید کہا کہ ’اعظم خان نے بتایا کہ سائفر والے کیس میں دباؤ تھا اس لیے ذہنی سکون کے لیے کچھ عرصہ کے لیے غائب ہو گیا تھا، اس کیس میں اسد مجید اور اعظم خان مرکزی گواہان میں شامل ہیں، میں سمجھانے کے لیے ٹرائل کے گواہوں کے بیانات پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں۔‘
اس بات پر عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے کہا کہ ’مجھے اس بات پر اعتراض ہے، سپیشل پراسیکیوٹر سائفر اسسٹنٹ نعمان کا بیان پڑھ کر سنا رہے ہیں جو اس کیس کے گواہ بھی ہیں۔‘
راجہ رضوان عباسی نے وکیل کے اعتراض کے باوجود اپنے دلائل جاری رکھے اور کہا کہ 'گواہ کے مطابق سائفر ٹیلی گرام موصول ہونے پر عمران ساجد کو حوالے کیا اور اس کا رجسٹر میں اندراج کیا۔‘ سائفر اسسٹنٹ کا بیان پڑھنے پر چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے دوبارہ اعتراض کیا۔
کلاسیفائیڈ دستاویز کی تشریح:
پراسیکیوٹر راجہ رضوان نے عدالت میں کہا کہ ’گواہ کے بیان میں واضح ہے یہ سیکرٹ کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹ تھا، سیکرٹ ڈاکیومنٹ کی کوئی سرکولیشن نہیں ہوتی، سیکرٹری خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ میں نے سیکرٹ ڈاکیومنٹ لکھا تھا۔‘
پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے کہا کہ ’جن کیسز کے حوالے دیے ان میں زیادہ تر کلاسیفائیڈ ڈاکیومنٹس کی معلومات لیک کرنے کے خدشات پر تھے، ان کیسز میں معلومات لیک کرنے کے ثبوت نہیں تھے مگر پھر بھی معلومات لیک ہونے پر سزائیں ہوئیں، اس کیس میں تو اعتراف جرم موجود ہے کہ سیکرٹ ڈاکیومنٹ کی معلومات کو پبلک کیا ہے۔‘
انہوں نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر کسی بیان سے پاکستان کے سپر پاور امریکا سے تعلقات متاثر ہوں تو یقینا اس کا کسی کو فائدہ بھی ہو گا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی وہ کر رہا ہے جو انتہائی ذمہ دار شخص ہونا چاہئے، اس سے متعلق معلومات تو وہ اپنی فیملی کے ساتھ بھی شیئر نہیں کر سکتا، یہ کیس بھی نہیں کہ اپنے فرینڈز کے درمیان بیٹھ کر معلومات شیئر کیں۔‘
رضوان عباسی نے دو گھنٹے میں دلائل مکمل کیے ان کے بعد سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور نے مختصر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سائفر نو مارچ 2022 کو پی ایم آفس میں وصول ہوا۔‘
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ’سائفر میسج واپس جانے کے حوالے سے کوئی تحریری ایس او پی ہے؟‘ اس پر شاہ خاور نے بتایا کہ ’خفیہ دستاویزہونے کی وجہ سے سائفر کو جلد از جلد واپس کرنا ہوتا ہے، اگر اس پر نیشنل سیکورٹی کمیٹی میٹنگ بلانی تھی تو فورا بلاتے، چیئرمین پی ٹی آئی نے 27 مارچ کو پریڈ گراؤنڈ جلسے میں سائفر لہرایا اور سیاسی فائدے کے لیے معلومات پبلک کیں، نو مارچ سے 27 مارچ تک کیا ہوا؟ نہ ہی اسے پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیا گیا، درخواست گزار کے وکیل نے خود اعتراف کیا کہ سائفر کی معلومات پبلک کی گئی تھیں۔‘ یہ کہتے ہوئے سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل مکمل کر لیے۔
ازاں بعد عمران خان کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے مقدمہ اخراج درخواست پر جوابی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’کہا گیا ہے کہ سائفر کی معلومات پبلک کرنے کا اعتراف کر لیا، میں قطعا کسی بات کا اعتراف نہیں کر رہا، عمران خان نے پبلک کو کوئی سائفر نہیں دکھایا بلکہ انہوں نے تو علامتی طور پر ایک کاغذ لہرایا تھا، ڈی کوڈ ہونے والا سائفر تو آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی، شہباز شریف اور خواجہ آصف کے پاس بھی گیا، اس پر تو سفارتی سطح پر شدید احتجاج بھی کیا گیا تھا۔‘
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ درج:
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سیکرٹری داخلہ یوسف نسیم کھوکھر کی مدعیت میں مقدمے کا اندراج ہو چکا ہے، جس میں انہیں سفارتی حساس دستاویز سائفر کو عام کرنے اور حساس دستاویز کو سیاسی مفاد کے لیے اور ملکی اداروں کے خلاف استعمال کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق وزیراعظم عمران خان جو پہلے ہی اٹک جیل میں زیر حراست تھے، توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود ان کو اس مقدمے میں شامل کر کے اٹک جیل میں ہی جوڈیشل ریمانڈ پر رکھا گیا ہے جبکہ شاہ محمود قریشی کو 19 اگست کو گرفتار کیا گیا تھا اور وہ بھی اب جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں۔ 20 اگست کو سابق وفاقی وزیر اسد عمر کو بھی ایف آئی اے کاونٹر ٹیررازم ونگ نے پوچھ گچھ کے لیے بلایا تھا۔ جس کے بعد اسد عمر نے ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔
درج ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ ’اسد عمر اور اعظم خان کے کردار کا تعین کیا جائے گا اگر وہ ملوث نکلے تو ان کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھی ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔‘
آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے لیے بننے والی خصوصی عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور شاہ محمود سے متعلق مقدمے کی جیل میں ان کیمرہ سماعتوں میں چالان پیش ہونے کے بعد باقاعدہ ٹرائل کا آغاز کیا اور نو اکتوبر کو ٹرائل کورٹ نے فیصلہ دیا کہ 17 اکتوبر کو عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فرد جرم عائد کی جائے گی۔ بعد ازاں اس فیصلے کو عمران خان نے ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔