اسلامی ممالک کی سب سے بڑی اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ سربراہ سعودی عرب کی دعوت پر اسرائیل کی غزہ میں جاری جارحیت پر تبادلہ خیال کے لیے ’فوری اور غیر معمولی اجلاس‘ آج جدہ میں ہو رہا ہے۔
توقع ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) غزہ میں ’فوجی کشیدگی‘ اور ’نہتے شہریوں کے لیے خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے ممکنہ اقدامات پر غور کرے گی۔
او آئی سی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب کی دعوت پر تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی غزہ اور اس کے گردونواح میں بڑھتی ہوئی فوجی صورت حال کے ساتھ ساتھ شہریوں کی زندگیوں اور خطے کی مجموعی سلامتی اور استحکام کو خطرے میں ڈالنے والے بگڑتے ہوئے حالات سے نمٹنے کے لیے وزارتی سطح پر ایک فوری غیر معمولی اجلاس طلب کر رہی ہے۔
پاکستان کی نمائندگی
پاکستان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی جدہ میں منعقد ہونے والے او آئی سی ایگزیکٹو کمیٹی کے وزارتی اجلاس میں شرکت کریں گے۔
وزارتی اجلاس میں اپنے خطاب میں وزیر خارجہ جیلانی غزہ میں سنگین انسانی صورت حال کے بارے میں پاکستان کے سنگین خدشات پیش کریں گے اور جنگ بندی، محاصرہ ختم کرنے اور غزہ کے عوام کو امدادی امداد کی فراہمی کی فوری ضرورت پر زور دیں گے۔ اس موقع پر وزیر خارجہ او آئی سی کے دیگر رکن ممالک کے اپنے ہم منصبوں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
ادھر امریکی صدر جو بائیڈن بھی آج اسرائیل پہنچیں گے۔ وہ اسرائیل سے اس کی مستقبل کی منصوبہ بندی، حکمت عملی اور تمام ممکنہ ضروریات کے بارے میں براہ راست دریافت کریں گے تاکہ کانگریس سے مل کر اس کا فوری بندوبست کر سکیں۔
امریکی صدر کے اس دورے کا مقصد اسرائیل کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنا ہے۔
امریکی صدر سے قبل امریکی وزیر خارجہ بھی تل ابیب پہنچے تھے جہاں انہوں نے اسرائیلی قیادت اور اعلیٰ سول وفوجی حکام سے ملاقاتیں اور دو طرفہ تعاون کے موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔
اس سے پہلے ہی امریکہ اپنے دو سب سے بڑے اور اہم بحری بیڑے بھی مشرقی بحیرہ روم میں بھجوانے کا کہہ چکا ہے۔ مقصد اسرائیل کو ہر طرح کا تحفظ دینا ہے۔ صدر جوبائیڈن اسرائیل کے علاوہ اردن بھی جائیں گے۔
او آئی سی اقوام متحدہ کے بعد دوسری سب سے بڑی تنظیم ہے جس کے چار براعظموں میں پھیلے 57 ممالک رکن ہیں۔ یہ تنظیم خود کو ’مسلم دنیا کی اجتماعی آواز‘ کہتی ہے۔
او آئی سی کا ہنگامی اجلاس ایک ایسے دن طلب کیا گیا جب سعودی عرب نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے بات چیت معطل کردی تھی۔
فلطسینی عسکری تنظیم حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا تھا جس میں 1300 افراد جان سے گئے۔ اس کے بعد غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملے سے قبل جوابی بمباری کی مہم شروع کر دی جس میں کم از کم 2215 افراد مارے جاچکے ہیں۔
اسلام کے مقدس ترین مقامات کا مسکن سعودی عرب نے کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں ہونے والے ابراہام معاہدے میں شامل ہوا جس میں اس کے ہمسایہ ممالک بحرین اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ مراکش نے اسرائیل کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کیے تھے۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ حالیہ مہینوں میں سعودی عرب کو بھی یہی قدم اٹھانے پر زور دے رہی تھی۔
اے ایف پی کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور حکومت میں ریاض نے تعلقات معمول پر لانے کے لیے چند شرائط رکھی تھیں جن میں واشنگٹن سے سکیورٹی ضمانت اور سویلین جوہری پروگرام کی ترقی میں مدد شامل تھی۔
حماس کی جانب سے اسرائیل پر حملے کے ایک ہفتے بعد سے ریاض نے حماس کے زیر کنٹرول غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کے مستقبل کے بارے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا اظہار کیا ہے، جہاں اسرائیل نے ہزاروں حملے کیے ہیں اور علاقے کے شمالی حصے کو خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
سعودی عرب نے جمعے کو غزہ کے اندر فلسطینیوں کی نقل مکانی اور 'نہتے شہریوں' پر حملوں کی مذمت کی تھی۔ اس بیان میں لڑائی شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل پر تنقید کے لیے سخت ترین زبان استعمال کی گئی۔
تنظیم تعاون اسلامی کب بنی
تنظیم تعاون اسلامی (او آئی سی) اقوام متحدہ کے بعد دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم ہے۔
مسلم علما اور مدبرین کی جانب سے عالمی اسلامی تنظیم کے تصور پر دہائیوں تک جاری والے غوروخوض کے بعد اس کی بنیاد 1969 میں ایک چارٹر کے ذریعے رکھی گئی اور اس تنظیم کا صدر مقام سعودی عرب کے شہر جدہ میں قائم ہے۔
او آئی سی میں 57 ممالک شامل ہیں جن کی مجموعی آبادی دو ارب کے قریب ہے۔
او آئی سی اپنے رکن ممالک سمیت دنیا بھر کے مسلمانوں کو لاحق باعث تشویش مسائل حل کرنے کے لیے بین الاقوامی میکنزم بشمول اقوام متحدہ کا ہر خصوصی ادارہ، حکومتوں، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی شراکت دار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2005 میں او آئی سی نے دہشت گردی، اسلاموفوبیا، ناقص طرز حکمرانی، اور اقتصادی عدم مساوات سمیت مسائل سے نمٹنے کے لیے 10 سالہ منصوبے کی منظوری دی۔ او آئی سی بین الاقوامی طور پر انسانی امداد کے لیے بھی سرگرم ہے۔
تنظیم نے 2008 میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی تنظیموں کی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کے لیے اسلامی تعاون کے انسانی امور کا محکمہ (آئی سی ایچ اے ڈی) قائم کیا۔ بعد ازاں او آئی سی نے 2011 میں صومالیہ میں تباہ کن قحط کے جواب میں 40 سے زیادہ اسلامی امدادی اور سول سوسائٹی کی دوسری تنظیموں کے ذریعے پورے ملک میں امدادی سامان کی فراہمی کا اہتمام کیا۔
2018 میں اوآئی سی ممالک کا ترکی کے شہر استنبول میں اجلاس ہوا جس کا مقصد ہلال احمر اور ریڈ کراس کی قومی سوسائٹیوں کے درمیان نیٹ ورک قائم کا قیام تھا تاکہ انسانی مسائل کے حل سمیت تنظیم کے رکن ممالک میں انسانی مشکلات انتہائی موثر انداز میں کم کی جا سکیں۔
مسلم ممالک کے درمیان بعض اختلافات کے باوجود او آئی سی نے طویل المدت ترقیاتی منصوبوں سے متعلق اپنی سرگرمیوں اور امداد سمیت صحت، تعلیم اور زراعت کے شعبوں میں اقدامات کے ذریعے ان ملکوں کو متاثر کیا ہے۔
او آئی سی کا پہلا سربراہی اجلاس 1969 میں مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کرنے پر مسلمانوں کے عالمی غصے کے بعد مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہوا تاکہ اس واقعے کے نتائج کے حوالے سے فیصلے کیے جا سکیں۔
یہ رباط سمٹ ہی تھی جس نے ثابت کیا کہ یہ صرف عرب دنیا کا مسئلہ نہیں بلکہ عالم اسلام کا بھی مسئلہ ہے۔ رباط کانفرنس نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کی شکست کے بعد ان کے حوصلے بلند کرنے میں مدد کی۔
او آئی سی وزرائے خارجہ کا پہلا اجلاس 1970 میں جدہ میں ہوا جس میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل کی سربراہی میں جدہ میں ایک مستقل سیکرٹریٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ڈاکٹر یوسف احمد العثیمین 11ویں سیکرٹری جنرل ہیں جنہوں نے نومبر 2016 میں عہدہ سنبھالا۔
او آئی سی کی وزرائے خارجہ کونسل کا پہلا غیر معمولی اجلاس بھی اسلام آباد میں جنوری 1980 میں منعقد ہوا تھا جس میں افغانستان کی صورت حال پر غور کیا گیا۔ پاکستان میں او آئی سی کا اس طرح کا دوسرا اجلاس 2007 میں ہوا تھا۔