کوالٹی آف لائف کو دیکھا جائے تو آپ کو پتہ ہے کہ ہمارا اسلام آباد لندن اور پیرس سے اوپر کی رینکنگ میں آتا ہے؟
روم، ایتھنز، میلان، ماسکو، باکو، ہانگ کانگ، استنبول، بیجنگ، دہلی، ممبئی، بیروت، تہران، ڈھاکہ وغیرہ سب ہم سے نیچے ہیں۔
195 ملکوں کی اس درجہ بندی میں ہمارا نمبر 121 واں ہے لیکن آپ دیکھیں کہ جن جگہوں پر ہم سارے اٹھ اٹھ کے، اتاؤلے ہو کر کے جاتے ہیں، ان سے بہتر معیار زندگی ہمارے اپنے یہاں موجود ہے۔ میری بات پہ شک ہے تو نمبیو کی ویب سائٹ دیکھ لیں، دنیا بھر میں قابل اعتبار ڈیٹا کے لیے مانی جاتی ہے۔
زندگی گزارنے کے لیے سستے ترین ملکوں کی رینکنگ نکالیں تو اس میں بھی پاکستان نمبر ون ہے۔ جو مہنگائی اس وقت ہمارے یہاں چل رہی ہے اس کے باوجود کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ پاکستان، جدھر آپ رہتے ہیں وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ غریب پرور قسم کی جگہ ہے؟
اس سے بڑا جھٹکا اس وقت لگا مجھے جب میں نے دیکھا کہ دنیا کے خوش ترین ملکوں میں پاکستان جو ہے وہ انڈیا سے کافی اوپر ہے۔
دنیا کے 137 ملکوں میں ہمارا نمبر 108 واں ہے لیکن انڈیا 126 ویں نمبر پہ ہے۔ چاند پہ ہو آئے، دنیا بھر میں انڈین سیاست دان حکومتوں میں بیٹھے ہوئے ہیں، سلیکان ویلی پہ ان کا راج ہے لیکن شہری پھر بھی ناخوش ہیں؟ اللہ کی مرضی بھائی! اپن لوگ مست ہیں اس حساب سے، کچھ نہ کر کے بھی 108 ویں نمبر پہ ہونا کمال نہیں تو اور کیا ہے؟
سری لنکا، افغانستان وغیرہ کی سمجھ آتی ہے، مالک ادھر حالات بہتر کرے، لیکن انڈیا؟
فری لانسنگ میں آپ کو پتہ ہے پاکستان دنیا بھر میں کہاں کھڑا ہے؟ چوتھے نمبر پہ، ہم سے اوپر اس وقت صرف امریکہ، انگلینڈ اور برازیل ہیں، انڈیا اس وقت نمبر سات پر ہے۔ اپنے یہاں بجلی نہیں ہوتی، انٹرنیٹ کہیں ہے نہیں ہے لیکن جوان لگے ہوئے ہیں۔
سوئٹزر لینڈ میں میکڈونلڈ کا جو کھانا ساڑھے 16 ڈالر میں آتا ہے پاکستان میں وہ ساڑھے تین ڈالر کا مل جاتا ہے، کیا کریں گے؟ کہاں بھاگنا ہے؟ جو ون بیڈ روم اپارٹمنٹ آپ کے یہاں تیس چالیس ہزار مہینے پہ ملتا ہے وہ نیویارک شہر میں چار ہزار ڈالر مہینے پہ ملے گا۔ کدھر رہیں گے؟ دنیا بھر میں سب سے سستی رہائش میں آپ پہلے ہی رہ رہے ہیں۔
کرائم ریٹ کی شکایت ہوتی ہے آپ کو، ڈیٹا دیکھیں، فرانس، ساؤتھ افریقہ، امریکہ، اٹلی، برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا آپ کو پاکستان سے اوپر ملیں گے۔ روس اور امریکہ کا مرڈر ریٹ تک پاکستان سے زیادہ ہے۔
آخری چیز سن لیں بس کہ عالمی معیشت سے متعلق ایک ادارہ ہے گولڈ مین سیکس، ایس اے سی ایچ ایس – سیکس، اس نے آٹھ دس ماہ پہلے ایک رپورٹ مرتب کی جس میں بتایا کہ 2075 تک دنیا کی معیشت میں ٹاپ کے ملک کون سے ہوں گے۔ پاکستان ان ملکوں میں چھٹے نمبر پہ ہے۔ چین، انڈیا اور امریکہ بالترتیب پہلی تین پوزیشنوں پہ ہیں۔
کیا بولوں؟ 2075 تک پاکستان سے باہر جانے کا نہ سوچیں؟ کیونکہ آج کل یہ فیشن ہے کہ اگر آپ کے ساتھ کچھ بھی برا ہو رہا ہے تو اس کا ذمے دار پاکستان ہے اور ’پاکستان سے زندہ بھاگ‘ قسم کے نعرے کافی زیادہ ٹرینڈ میں ہیں، اس پاکستان سے زندہ بھاگنا ہے جو دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو اپنے پاس رکھنے والا چوتھا بڑا ملک ہے؟ اس لسٹ میں صرف جرمنی ترکی اور ایران پاکستان سے اوپر ہیں۔
جائیں، ضرور جائیں، اس لیے جائیں کہ اُن سب درجہ بندیوں کے علاوہ ایک چیز فی کس آمدنی کی درجہ بندی بھی ہوتی ہے، یعنی ایوریج کے حساب سے ایک بندہ کیا کماتا ہے۔ اس میں پاکستان 129 ویں نمبر پہ ہے اور اس سے نیچے زیادہ تر افریقی ملک ہیں یا افغانستان!
تو جائیں، لیکن بس تھوڑا حساب کتاب لگا کے جائیں۔ صرف بیمار ہونے کی صورت میں جو لمبا چوڑا بل نئے جانے والوں کو دینا پڑتا ہے، کم از کم اتنے پیسے جیب میں رکھ کے جائیں، کسی ایمرجنسی میں واپس آنا پڑے تو ٹکٹ کے پیسوں کا حساب لگا کر جائیں اور یا پھر بالکل کشتیاں جلا کے جائیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے جیسوں کے لیے باہر جا کے بھی زندگی مسلسل ایک جدوجہد ہے۔ پاکستان میں چار پیسے آپ کما لیتے ہیں تو گھر میں کام سے لے کر گاڑی دھونے تک کے لیے بندے بہت سستے میں تیار ہو جاتے ہیں، باہر یہ سب بھی بڑا مہنگا ہے۔ پیسے جیب میں پڑے ہوں لیکن سارا کام پھر بھی خود کرنا پڑے تو کیا فائدہ؟
ایک پریشانی اکیلے پن کی ہے۔ مجھ جیسے جو باہر جائیں تو دوسرے ہفتے انہیں اپنی آب و ہوا یاد آنے لگتی ہے، کڑکتی دھوپ اور مدھم سردیوں کے خواب شروع ہو جاتے ہیں۔
اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ عام پاکستانی جہاں جہاں جانے کے خواب دیکھتے ہیں وہاں یا تو مسلسل بارش نما موسم ہوتا ہے یا پھر سردی آتی ہے تو جانے کا نام نہیں لیتی۔ برفباری کا ہی سوچ لیں یار، گھر کو گرم رکھنے کا بل عین اسی طرح آتا ہے وہاں جیسے اپنے یہاں ٹھنڈا رکھنے کا، تو کام کریں گے کیسے، کمائیں گے کیا اور سخت موسموں سے کیسے بچیں گے؟
حق بات یہ ہے کہ جانے والا آخری حد پہ ہوتا ہے تو جاتا ہے۔ اسے موسم یاد آتے ہیں نہ اکیلے پن کا خیال ہوتا ہے۔ خالی جیب ویسے بھی ہر وہ کام کروا دیتی ہے جس کا عام حالات میں انسان نے سوچا تک نہیں ہوتا۔
بھوکے انسان کو ڈنکی لگانے سے اعدادوشمار روک سکتے ہیں نہ کوئی خوش خبری، اسے صرف امید چاہیے ہوتی ہے اور امید ہمارے پاس 2075 کی ہے۔ دلی ہنوز دور است!