ہاں بھئی زندہ ہو؟ ابے نئیں موت آتی اتنے آرام سے، گھر بیٹھے ہوئے ہیں، کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، سو رہے ہیں، انگڑائیاں مک نئیں رہیں اور مر جائیں گے اچانک۔ وہمی نہ بنو بھائی خدا کے واسطے، جس دن کرونا گھسنا ہے اس دن منٹ نئیں لگنا، وائرس اندر، دم باہر! بقول نٹشے، کی دم دا بھروسہ یار، دم آوے نہ آوے!
ٹھیک ہے باہر جانے کی پابندی ہے، لیکن گھر سے جہاں آسمان نظر آتا ہے ادھر جانے کی تو پابندی نہیں ہے؟ دھوپ سینکو اور دیکھو آسمان اتنا نیلا پہلے کبھی نہیں تھا، رات کو بتیاں بجھاؤ اور دیکھو کہ ستارے باقاعدہ ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل سٹار کر رہے ہوتے ہیں۔
دیکھو موت آنی ہوتی تو اب تک آ چکی ہوتی، ابھی کل بھی آنی تھی، پرسوں بھی آئے گی لیکن روز مرنا چھوڑ دو بھئی، چلتی پھرتی میت مت بنو۔ دوہفتے پہلے والے کالم تک بھی زندگی تھی، یہ والے پر بھی ماشاللہ سے چل رہا ہے انگوٹھا، اگلی بار والا بھی ایسے ہی پڑھا جا رہا ہو گا اگر میں زندہ رہا تو۔ لیکن یہ بات تو عام دنوں میں بھی سب کہہ رہے ہوتے ہیں، جو مر جاتا ہے وہ ولی اللہ ہو جاتا ہے۔
جنازے پہ بیٹھے لوگوں میں اچانک ایک بندہ ٹھنڈی یخ ڈرامائی سی آہ لے کے بولتا ہے، حاجی ساب نوں پتہ سی اونہاں ٹر جانا، کل ای کہہ رئے سن، بس ہن چل چلاؤ اے۔ تو مرنا بلاشک ہے۔ کسی بھی وقت ہے۔ کسی بھی طرح ہے، لیکن یہ کیا کہ باہر سے آئے ہوئے لفافوں پہ ڈیٹول چھڑک کے بھی سکون نہیں آ رہا؟ کیا پتہ ڈیٹول کے ڈھکن پہ بنی باریک لائنوں میں اندر کہیں وائرس چھپا ہو، پھر؟
اس وقت اگر لوگوں کے دماغوں میں کیمرہ لگ سکتا ہوتا تو کیا مزہ آتا، آہا۔ جو عاشق ابھی چند دن پہلے تک خود کشی کے لیے اتاؤلے ہوئے پھرتے تھے، جان ایسے ہتھیلی پہ رکھی ہوئی تھی کہ بس یہ پھونک ماری اور یہ گئے، وہ بھی سارے اب منہ پہ ماسک چڑھائے گھروں گھری ہو چکے ہیں۔ جن کو جانوؤں سے شکایت ہوتی تھی کہ ٹائم نہیں دیتے اب وہ بے وقت کے جانو پن سے عاجز ہیں۔ جو ورک فرام ہوم کرنے والوں کو حسرت سے دیکھا کرتے تھے اب اپنی تمنا پہ لعنت بھیجتے ہیں، اور تو اور فیس بک پہ فانی بدایونی قسم کے موتیلے شعر پوسٹ کرنے والوں کو ایسے سانپ سونگھا ہے جیسے اگلے کرونے کا شکار وہی ہو گا جو دنیا سے عاجز ہونے کا شعر لٹکائے گا۔جنہیں مالی سے شکایت ہوتی تھی کہ پودوں کو پانی ٹھیک سے نہیں دیتا، دو دن تسلی سے پانی دینے کے بعد دو ہفتے سے پائپ کو ہاتھ لگانے کی بجائے بارش کی دعا کر رہے ہیں۔ جو سوچتے تھے کہ ماسی شرٹ کے کالر نہیں رگڑتی وہ اب دھونے کے خوف سے یا اعتراض کے بعد دھلائی کے ڈر سے چٹے کپڑوں کو ہاتھ نہیں لگا رہے، مطلب ایک اخیر غدر ہے جو گھر گھر میں برپا ہے، ہائے ہائے، علی بن متقی رویا!
ایسے میں صحیح شغل وہ لگا رہے ہیں جن کے ستو کبھی بھی، کسی بھی حال میں ٹھنڈے نئیں ہوتے۔ 'کرونا کو شکست دینی ہے، کرونا سے لڑنا ہے، کرونا کو بھگانا ہے' ابے چونچ، کرونا جیسے تم کو نظر آ جائے گا اور تم تلوار بازی کر کے اسے چت لٹا دو گے یا تمہارا کمانڈر کوئی لیزر مارے گا اور سارے کرونے پھڑک کے جل جائیں گے اور چر مر ہو کے زمین پہ پڑے ہوں گے۔ یہ تو وہ جنگ ہے جس میں تم شانہ بشانہ تک نہیں کھڑے ہو سکتے، صفیں بھی منتشر ہوئی پڑی ہیں، کچھ خدا کا خوف کر لو، اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ایویں ٹانگ رہے ہو۔کون سا دشمن، کیسی جنگ، نچلے ہو جاؤ ذرا، جان بچا لو بھائی اپنی جان! مطلب یہ عین وہ والی قوم ہے جو گھوڑوں پہ سو جاتے تھے، گھوڑوں پہ کھاتے پیتے تھے، گھوڑوں پہ ہی بچے جن کے زنانیاں پھر جنگ میں کھڑی ہوتی تھیں، لیکن ان کے سامنے کم از کم کوئی ہوتا تو تھا نا جس سے لڑتے تھے؟ کدھر مارو گے، کس کو ہراؤ گے؟ جو نظر ہی نہیں آ رہا؟ نہیں کیسے شکست دو گے آج بتا دو؟ یہ کون سا جذبہ ہے جو بستر میں لیٹے لیٹے موبائل پہ انگلیاں چلانے کو بھی جنگیں سجھا رہا ہے؟ ڈاکٹر تک جنگ نہیں کر رہے، وہ بے چارے بھی نوکری نبھا رہے ہیں، چوڑے میں آن کر پھنسے ہوئے ہیں، عذاب میں ہیں، ان کو سلیوٹ مارنے کے بجائے کھانے پینے کی چیزیں یا گرم چائے ان تک پہنچا دو، اصلی والے این پچانوے ماسک تک ہیں نئیں ان کے پاس، ایڈے تہاڈے جذبے، روندے جنگاں نوں!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ ایسے ہیں جنہیں یقین ہی نہیں آ رہا اب تک، اور بے شک یہ وہی ہیں جنہیں انسان کے چاند پر قدم رکھنے کا یقین آیا تھا اور نہ ہی وہ اس چیز پر اعتبار لاتے تھے کہ زمین گول ہے اور انہیں یہ ماننے میں بھی تامل تھا کہ سورج زمین کو گھماتا ہے اپنے گرد، ایسے لوگوں کے لیے کوئی سخت بات نہیں۔ تم بھی ہم میں سے ہو، کوئی بات نئیں، نہ مانو، جس دن اپنی زمین پھٹے گی (اور اس میں گڑ جاؤ گے) تو سمجھیں آ جائیں گی ساری۔ وبا ہے مرشد، دنیا میں ہے، لوگ مر رہے ہیں، تمہیں نہ ماننے کی لگی ہوئی ہے، تم نے گواہیاں مانگنی ہیں، تم نے پوچھنا ہے میرے آس پاس والوں کو اب تک کیوں نہیں ہوا، کمال کرتے ہو پانڈے جی!
رہے نام اللہ کا، فنائیوں کو بقا کہاں، انتظار حسین کے مور ہر سال زندہ ہو جاتے تھے، حمید اختر آخری دم تک نکودر کیمپ نہیں بھلا پائے، اے حمید کو سنہالی حسیناؤں اور برما کی یاد ہر پندرھویں صفحے پہ آتی تھیں لیکن اپنا فرنود عالم اب چڑیوں سے عشق لڑائے گا، خدا کا قہر ہے، یہ اس وبا کی سب بڑی انہونی ہے، ابے تم یہ کرو گے تو ہمارے لیے کیا بچے گا فرنود بالم!
اس وبا نے ایک نئی چھیڑ بنا دی ہے بھائی کی، ہر دوسرے بندے کا آرٹیکل آتا ہے، 'وبا کے دنوں میں یہ، وبا کے دنوں میں وہ' جو کالم اب آنا چاہیے وہ یہ بنتا ہے کہ 'وبا کے دنوں میں پٹے ہوئے عنوانات کی مطمئن برسات!' مارکیز فوت ہو کے دوبارہ زندہ ہو گیا، اس سے پہلے یہ اعزاز صرف فراز اور غالب کے حصے میں ہی آیا تھا کہ رکشوں کے پیچھے تک بے وزنی شعر ان کے نام سے لکھے نظر آتے تھے۔ جتنا 'لو ان دا ٹائمز آف کولرا' کو رگڑا گیا ہے مولا ایسی عزتیں بھی کسی کو نہ دے۔ خیر، سکھی رہو، اس دن عید مبارک ہوسی جس دن فیر ملاں گے!