صبح کے چار بج رہے تھے جب امیتابھ بچن اپنے دفتر کے کمرے میں تنہا بیٹھے خالی خالی نگاہوں سے در و دیوار کو گھور رہے تھے۔
ذہن میں مستقبل کے حوالے سے ان گنت خدشات اور خطرات کی جنگ چل رہی تھی۔ زندگی میں اس دور کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ مالی مشکلات کے بھنور میں وہ پھنستے چلے جائیں گے یہ خیال کبھی نہیں آیا تھا۔
انہوں نے اداکاروں کے عروج کے بعد زوال کی داستانیں سنی تھیں اور کئی ناکام اداکاروں کو قریب سے دیکھا بھی تھا لیکن خود کو ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا یہ بات ان کی راتوں کی نیند اڑا گئی تھی۔
ایسے برے حالات آگئے تھے کہ کوئی فلم ساز یا ہدایت کار انہیں اپنی تخلیق میں شامل کرنے پر تیار نہیں ہو رہا تھا جن فلموں میں کام کر چکے تھے وہ سنیما گھروں سے ہی نہیں پرستاروں کے دلوں سے چند دنوں میں اتر جاتیں۔
امیتابھ بچن کو سمجھ نہیں آرہا تھا کیوں انہوں نے کمپنی ’امیتابھ بچن کارپوریشن لمٹیڈ‘ بنائی تھی۔ ایک ایسی کمپنی جس کی دھوم دھڑکے کے ساتھ شروعات کی گئی۔ مارکیٹ سے لے کر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی گئی جس کے تحت فلمیں، ٹی وی پروگراموں کے ساتھ کنسرٹس کا وسیع جال ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بچھانا تھا لیکن اے بی سی ایل کا قد آور بت اچانک ہی زمین بوس ہوتا چلا گیا۔
کمپنی کے تحت بننے والی فلمیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو وہیں ٹی وی پروگراموں نے بھی کما کر نہیں دیا۔
پے در پے فلموں کی ناکامی
امیتابھ بچن نے بطور پروڈیوسر تیرے میرے سپنے، میجر صاحب اور مرتیو دنڈ میں سرمایہ لگایا لیکن یہ فلمیں بری طرح خسارہ دے گئیں۔ امیتابھ بچن کو یاد تھا کہ فلم ’مرتیو دنڈ‘ کی سکریننگ کے دوران ہی ان کی شریک سفر جیا بچن فلم ادھوری چھوڑ کر گھر لوٹ گئی تھیں جو اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ یہ فلم باکس آفس پر ٹک نہیں پائے گی اور پھر ایسا ہی ہوا۔
بالی وڈ کے شہنشاہ کہلائے جانے والے امیتابھ بچن ایک ہارے ہوئے سپاہی کی طرح ہو کر رہ گئے تھے۔ جنہوں نے کمپنی میں سرمایہ لگایا تھا اب وہ رقم کی واپسی کا تقاضہ کر رہے تھے اور امیتابھ بچن بینک دیوالیہ ہوچکے تھے۔ یہاں تک کہ ان کا ایک بنگلہ تک ضبط کر لیا گیا۔
امیتابھ بچن کو کم و بیش 90 کروڑ روپے کا قرضہ واپس کرنا تھا جو وہ ادا نہیں کر پا رہے تھے۔ پچپن کے قریب مالی بے قاعدگیوں کے ان پر مختلف مقدمات تھے جن کا وہ سامنا کر رہے تھے۔ رقم کا تقاضہ کرنے والے گھر کے باہر کھڑے رہتے جو ہر حد کو پار کرنے پر تیار تھے۔
رقم کی واپسی کے تقاضے والے گھر کے در پر
امیتابھ بچن نے بہت قریب سے کئی افراد کا اصل چہرہ دیکھا تھا جو مصیبت اور پریشانی کی اس گھڑی میں ان سے دور جا کھڑے ہوئے تھے۔ یہ وہی تھے جو ان کے عروج کے دور میں ہر دکھ و سکھ کا دم بھرنے کے وعدے کرتے۔
ذرائع ابلاغ گو کہ دور حاضر کے برعکس محدود تھا لیکن وہاں بھی امیتابھ بچن کی درست تصویر پیش نہیں کی جا رہی تھی۔ یعنی امیتابھ بچن کئی محاذ پر لڑ رہے تھے۔
زندگی کی سب سے مشکل صبح
انہی پریشانیوں اور دشواریوں کا مقابلہ کرتے ہوئے امیتابھ بچن صبح سویرے اپنی کمپنی کے کمرے میں بیٹھے آنے والے خوفناک وقت کے بارے میں سوچ رہے تھے۔
مختلف سوالات اور پھر خود ان کے جوابات دیتے ہوئے امیتابھ بچن کے ذہن میں ایک سوال یہ بھی آیا کہ اس نامساعد حالات میں کون سا ایسا کام ہے جو وہ کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
اس کا جواب انہیں فوراً اداکاری کی صورت میں ملا۔ پھر سوال یہ بھی آیا کہ اداکاری تو وہ کر ہی رہے تھے لیکن فلمیں ناکام ہو رہی تھیں لیکن پھر سوچا کہ بس ایک آخری کوشش کرتے ہیں۔
امیتابھ بچن نے ایک نئے جذبے اور جوش کے ساتھ اپنی تمام تر توانائیوں کو یکجا کیا اور پھر پراعتماد انداز میں اٹھے۔ گو کہ اس سے پہلے بھی وہ کئی ہدایت کاروں کے پاس فلموں میں شامل ہونے کی درخواست لے کر جاتے رہے تھے لیکن اس بار انہوں نے ٹھان لیا کہ اس کی پہل اپنے پرانے دوست یش چوپڑہ سے کریں گے۔
کام مانگنے کے لیے یش چوپڑہ تک رسائی
امیتابھ بچن دفتر سے سیدھے اپنی رہائش گاہ کے عقب میں واقع یش چوپڑہ کے گھر صبح سویرے پہنچ گئے۔ ان کی غیر متوقع آمد پر یش چوپڑہ نے کوئی سوال نہیں کیا کیونکہ امیتابھ بچن نے ان کے مقابل آکر بس یہی کہا کہ انہیں ہر صورت میں کام چاہیے کیونکہ ان کے پاس کرنے کو کچھ نہیں۔
یش چوپڑہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر بتایا کہ ان کا بیٹا ادتیہ چوپڑہ ’دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کے بعد اب ایک اور فلم ’محبتیں‘ بنانے کی تیاری کر رہا ہے اور اس میں امیتابھ بچن کے لیے نرائن شنکر کا کردار ہے۔ اگر وہ کرنا چاہیں تو بتائیں۔
امیتابھ بچن نے ایک سکینڈ کے لیے تذبذب کا مظاہرہ نہیں کیا اور فوراً ہی اس کردار کے لیے ہامی بھر لی جس میں ان کے ساتھ شاہ رخ خان اور ایشوریا رائے بھی تھے۔
گھر واپسی پر امیتابھ بچن خاصے پرسکون اور مطمئن تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یش چوپڑہ کی فلم میں کام کے اعلان سے ہی ان کا کیریئر اب ناکامی کے گھپ اندھیرے سے نکل آئے گا۔
امیتابھ بچن ماضی میں یش چوپڑہ کی فلموں کبھی کبھی، سلسلہ، دیوار اور ترشول میں اداکاری کے جوہر دکھا کر اپنے آپ کو سپر سٹار بنا چکے تھے۔ اسی بنا پر وہ نئی فلم کی کامیابی کے لیے پرامید تھے۔
چھوٹی سکرین پر آمد پر ان گنت خدشات
امیتابھ بچن نے یش چوپڑہ کی فلم تک خود کو محدود نہیں کیا بلکہ ادھر ادھر ہاتھ پیر بھی مارنے شروع کیے۔ بھارت کے نجی ٹی وی نے جب ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کے لیے امیتابھ بچن کو پیش کش کی تو ان کے خیر خواہوں نے انہیں منع کیا کہ ہرگز چھوٹی سکرین پر آکر اپنی ساکھ کو داؤ پر نہ لگائیں۔
یہاں تک کہ جیا بچن نے بھی اس کی مخالفت کی لیکن امیتابھ بچن کو مالی خسارے اور قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کے ساتھ ساتھ خود کو پھر سے منوانے کی دھن سوار تھی۔ اسی لیے انہوں نے لاکھ مخالفتوں کے باوجود ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کی میزبانی کے لیے ہامی بھر لی۔
اب ایک طرف جہاں امیتابھ بچن کی فلم ’محبتیں‘ کی عکس بندی جاری تھی وہیں ’کے بی سی‘ کی تیاری بھی اور تین جولائی 2000 کو جب اس کا پہلا شو نشر ہوا تو ابتدا سے ہی اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کر دیے۔
امیتابھ بچن کا مخصوص اور دلچسپ انداز ہر ایک کو بھا گیا۔ اس پذیرائی نے جیسے امیتابھ بچن کو ایک بار پھر کامیابی کی راہ کا مسافر بنا دیا۔
ادتیہ چوپڑہ کی ’محبتیں‘ نے دنیا بدل دی
ادتیہ چوپڑہ کی ’محبتیں‘ میں ہر ایک کی دلچسپی تھی جس میں امیتابھ بچن نے ایک سخت گیر اور اصول پسند پرنسپل کا کردار ادا کیا۔ فلم بین یہ دیکھنے کو بھی بے تاب تھے کہ دو سپر سٹارز کا جب ٹاکرا ہوگا تو کون کس پر بازی لے جائے گا۔
یہ بالکل اسی طرح تھا جیسے 1982 میں نمائش پذیر ہونے والی دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کی فلم ’شکتی‘ کے ساتھ معاملہ تھا۔
امیتابھ بچن جو سب کے لیے آنکھ اوجھل ہوگئے تھے اب پھر سے مرکز نگاہ بنے ہوئے تھے۔ یش چوپڑہ کی فلم کا سن کر دیگر ہدایت کار بھی امیتابھ بچن کو کاسٹ کرنے میں دلچسپی دکھا رہے تھے۔
27 اکتوبر 2000 کو جب ’محبتیں‘ سنیما گھروں میں سجی تو اس نے کمائی اور کامیابی کی نئی سرحدیں پار کیں۔ امیتابھ بچن نے اداکاری کے اپنے تمام تر تجربے کو بروئے کار لا کر شاہ رخ خان کے مقابل ایسی اداکاری دکھائی کہ ہر طرف بس امیتابھ بچن کا چرچا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امیتابھ بچن اب پھر سے لمبی ریس کے گھوڑے ثابت ہو رہے تھے۔ فلموں کی برسات ہو رہی تھی۔ کمرشلز کی بھرمار تھی۔ کیا یہ اعزاز کم تھا کہ اگلے سال جب فلم فیئر ایوارڈز کا میلہ لگا تو امیتابھ بچن اپنی اسی غیر معمولی اداکاری کی بنا پر ’بہترین معاون اداکار‘ کا اعزاز حاصل کر گئے۔
یہ امیتابھ بچن کو کم و بیش آٹھ سال بعد ملنے والا پہلا ایوارڈ تھا۔ بس اس کے بعد امیتابھ بچن نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ مالی بحران اور لوگوں کے قرضے اترتے چلے گئے اور امیتابھ بچن پھر بالی وڈ کے شہنشاہ بن ہی گئے۔
ڈھلتی عمر کے باوجود غیرمعمولی پرجوش
حال ہی میں عمر کی 81 بہاریں دیکھنے والے امیتابھ بچن اس وقت فلموں کے ساتھ ساتھ کمرشلز دنیا کے مہنگے ترین ماڈلز تسلیم کیے جاتے ہیں۔
’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کے اب تک 15 سیزن ہو چکے ہیں اور امیتابھ بچن کے بغیر اس ٹی وی شو کا تصور محال ہے۔ بالی وڈ کے شہنشاہ نے ثابت کیا کہ وہ واقعی شہنشاہ ہیں جو اب سوشل میڈیا، فلموں، ٹی وی، کمرشلز اور تقریبات میں خاصے فعال رہتے ہیں، درحقیقت امیتابھ بچن اب ایک برانڈ بن چکے ہیں اور اس ڈھلتی ہوئی عمر کے باوجود امیتابھ نوجوان اداکاروں کے مقابلے میں ناصرف زیادہ مصروف ہیں بلکہ زیادہ پرجوش اور جوشیلے ہیں۔
اپنی ناکامی کا خود تجزیہ
امیتابھ بچن کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ وہ 2000 کے آغاز میں ہی اپنی مسلسل ناکامی اور مالی بحران سے دل برداشتہ ہو کر گھر ہی بیٹھ جاتے لیکن صبح سویرے اکیلے کمرے میں بیٹھ کر انہوں نے خود اپنا تجزیہ کیا کہ وہ بہترین کام کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔
وہ فلم سازی نہیں کر سکتے تھے، ہدایت کاری نہیں کرسکتے تھے اور ایک کاروباری انسان نہیں بن سکتے تھے۔ ان کے پاس صرف ایک ہی ہنر تھا اور وہ اداکاری تھا۔ تب انہوں نے سوچا کہ سب کام چھوڑ کر صرف اسی کام پر توجہ دی جائے جو انہیں آتا ہے۔