آج دنیا بھر میں صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثنیٰ کے خاتمے کا دن منایا جا رہا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد دنیا بھر میں صحافیوں کے قتل، اغوا اور تشدد کے خاتمے اور انہیں مکمل انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔
اگر اس سال کا جائزہ لیں تو ’رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز‘ کے مطابق 2023 میں 34 صحافیوں اور دو میڈیا پرسنز کو اب تک ان کے کام کی وجہ سے قتل کر دیا گیا جبکہ 510 صحافیوں اور 22 میڈیا پرسن کو اغوا کیا جا چکا ہے۔
جنگ اور تنازعات کی رپورٹنگ میں صحافیوں کی زندگی کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق پچھلے سال کے دوران صحافیوں کی اموات میں 50 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس کی بڑی وجہ یوکرین جنگ تھی یعنی ’وار اور کونفلیکٹ زون‘ میں صحافی اپنے کام کی وجہ سے موت کی گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔
کمیٹی آف پروٹیکشن آف جرنلسٹ کے مطابق فلسطین پر اسرائیلی حملے میں یکم نومبر تک 33 صحافی اپنی جان سے جا چکے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔ اس جنگی صورت حال میں انسانی المیے کو رپورٹ کرنا مشکل ترین ہوتا جا رہا ہے۔
پاکستان کے چند صحافی بھی اس جنگ کو کور کرنے لبنان پہنچے، جن میں سے جیو ٹی وی کے دو سینیئر صحافی طارق ابوالحسن اور علی عمران سید ہیں۔ جیو کی ٹیم 30 اکتوبر کو واپس آ چکی ہے۔
وار زون سے رپورٹنگ کرنا کتنا مشکل ہے، اس حوالے سے طارق ابوالحسن نے بتایا: ’سب سے پہلے آپ تنازعے کو سمجھیں۔ آپ کا کام رپورٹ کرنا ہے، کسی فریق کا حصہ بننا نہیں، لہذا ذمہ دارانہ انداز میں رپورٹ کرنا ضروری ہے۔ اس جنگ میں فلسطینی صحافیوں کی تعداد اس لیے بھی زیادہ ہے کیونکہ اسرائیل تاک تاک کر ان کا نشانہ لے رہا ہے۔ پریس کی گاڑیوں پر واضح طور پر پریس لکھا ہوتا ہے لیکن اگر اسے کوئی ڈرون نشانہ بناتا ہے تو واضح ہے کہ نشانہ وہی تھا۔ اجتماعی سزا کا انداز بھی ہمیں یہاں نظر آتا ہے کیونکہ الجزیرہ کے صحافی کے گھر کو نشانہ بنانے کا مقصد یہی تھا کہ صحافی اور اس کے گھر والوں کو بھی سزا ملے گی۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ اس کے جنگی جرائم بین الاقوامی سطح پر رپورٹ ہوں۔ ہم نے لبنان میں اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں مسیحی آباد تھے۔ اس علاقہ کے براہ راست حملے کی زد میں آنے کی امید کم تھی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ادارے کی طرف سے دونوں صحافیوں کی انشورنس بھی تھی اور مکمل رابطہ بھی۔ دونوں صحافیوں کے پاس مقامی اور بین الاقوامی سطح پر اس طرح کی رپورٹنگ کا تجربہ ہے۔‘
جیو کے دوسرے صحافی علی عمران سید نے بتایا کہ ’کسی بھی تنازع کی رپورٹنگ میں پہلا سوال صحافی کا اپنا تحفظ ہے۔ یہاں بھی ہمارے لیے بھی اہم سوال یہ تھا کہ رہیں گے کہاں؟ ہمیں بارڈر کے علاقے میں ہوٹل ملا۔ ہم دونوں ’دانہ ہوٹل‘ میں رکنا چاہتے تھے جہاں دیگر عالمی میڈیا کے صحافی رکے ہوئے تھے، لیکن وہ مکمل طور پر بھرا ہوا تھا۔ ہم نے الجزیرہ کے صحافی کی ہدایت پر سرحدی علاقے کے نزدیک دوسرے ہوٹل ’راشہ‘ کا انتخاب کیا۔ ہمارا ہوٹل ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر کے اندر تھا۔ سرحد سے جڑے ہونے کی وجہ سے، صحافی یہاں رکنا پسند نہیں کرتے لیکن ہمارے پاس کوئی اور راستہ نہیں تھا۔‘
بقول علی عمران: ’رات میں کئی دفعہ لگا کہ دھماکہ ہمارے بالکل قریب ہی ہوا۔ دن میں بھی ہم کئی بار بال بال بچے۔ اس وقت لبنان میں ہم جنوبی ایشیا کے واحد ٹی وی رپورٹر تھے۔ ہم نے سرحد سے نزدیک ہونے کی وجہ سے کئی اچھی رپورٹس بنائیں۔ خاص کر یو این کا قافلہ یہاں سے گزرا جسے طارق ابوالحسن نے رپورٹ کیا جبکہ انڈیا نے واضح طور پر اسرائیلی موقف کے ساتھ رپورٹنگ کی۔‘
سنو ٹی وی کے ایڈیٹر انویسٹی گیشن طارق حبیب ابھی لبنان میں ہی ہیں۔ انھوں نے ہمیں کربہ، لبنان سے بتایا کہ ’سب سے پہلے صحافیوں کے تحفظ کے لیے ادارہ اور دیگر میڈیا ادارے ٹریننگ مہیا کریں۔ ہر انسان کی طرح صحافی کی زندگی بھی اہم تر ہے لیکن صحافی کی جان اس کے کام کی وجہ سے جاتی ہے۔ صحافی کے لیے رسک مینیجمنٹ بہت ضروری ہے۔ صحافیوں کی کسی بھی رپورٹ پر کام کرتے ہوئے اپنے ادارے کے ساتھ ساتھ یونین کو بھی اعتماد میں لیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے ہر صحافی کو سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی تنازع اور وار زون میں ہمیشہ غیر متنازع رہیں۔ یک طرفہ رپورٹنگ ہی آپ کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے اس لیے صحافتی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ تنازعے کو رپورٹ کریں۔ اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے صحافیوں کی انشورنس کروائیں، اس میں چھوٹے شہروں کے صحافی بھی شامل ہیں۔‘
پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
29 اکتوبر کو فریڈم نیٹ ورک نے ایک پریس ریلز جاری کی۔ جس کے مطابق، پاکستان میں دنیا بھر کی طرح صحافیوں کے خلاف جرائم کا اضافہ دیکھا گیا۔ اگست 2022 سے اگست 2023 تک 37.5 فیصد صحافیوں نے تشدد کا سامنا کیا اور انہیں ہراسانی، اغوا، جسمانی تشدد اور مقدمات کا سامنا بھی رہا۔
2021 سے 2023 کے دوران صرف اسلام آباد میں ہی 248 میں سے 93 ایسے کیس درج ہوئے ہیں۔ اس کے بعد سندھ کے صحافیوں پر 56 کیسز بنے اور پاکستان پریس فاؤنڈیشن کے مطابق دو صحافی قتل اور 72 پر تشدد جبکہ تین اغوا کے واقعات رپورٹ ہوئے۔
صحافیوں کے تحفظ کا قانون اور کمیشن کا قیام
پاکستان میں جہاں اتنے مشکل حالات رہے وہاں کچھ اچھے اقدامات بھی سامنے آئے ہیں۔ صحافیوں کے تحفظ کے لیے قومی سطح پر قانون Protection of Journalists and Media Professionals Act-2021 پاس ہو چکا تھا لیکن ابھی تک سندھ کے سوا کہیں اور کمیشن نہیں بن سکا۔
سندھ میں رشید اے رضوی کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن فروری 2023 سے فعال ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کی رینکنگ 157 سے 150 پر آ چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سندھ پروٹیکشن کمیشن کے نمائندے حسن نقوی کا کہنا ہے کہ ’فروری سے کمیشن کام کر رہا ہے۔ اب تک 12 درخواستوں پر کام ہو چکا ہے جبکہ چھ پر ابھی کام چل رہا ہے۔ صحافی ہم سے رابطہ کرتے ہیں۔ کمیشن کی جانچ پڑتال کا اپنا طریقہ ہے۔ ہم اپنے بورڈ اراکین سے میٹنگ کے بعد رپورٹ پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہم پولیس، ایف آئی اے اور دیگر سکیورٹی کے اداروں سے رابطہ کرتے ہیں تاکہ صحافی کی شکایت دور کی جائے۔‘
ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی خبر یا اطلاع پر کمیشن کے سربراہ یا کمیٹی کا رکن چاہیے تو اس پر ایکشن لیا جاسکتا ہے۔
صحافی اور صحافی تنظیموں کا موقف
انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ، ایشیا پیسفک کی ڈائریکٹر جین ورتھنگٹن نے ای میل پر ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ’صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی سب سے بڑی وجہ ’عوام کے جاننے کا حق‘ ہے۔ پاکستان میں بھی صحافیوں کے خلاف جرائم کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ لیکن اب تک کسی صحافی کے قاتل کو سزا نہیں مل سکی بلکہ 90 فی صد کیسز کا فیصلہ اب تک نہیں ہو سکا۔ پوری دنیا میں ہی صحافیوں کو ہراساں کرنا، انہیں چپ کروا دینا، اغوا اور قتل کے کیسز بڑھے ہیں۔‘
جین کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’پاکستان میں میڈیا ہاؤسز پر ایک غیر اعلانیہ سنسرشپ لگی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے پوری دنیا میں بہت برا تاثر جا رہا ہے۔ اگر صحافیوں کو روکا جائے گا تو معاشرہ بھی رکے گا۔‘
پاکستانی صحافی ارشد شریف کے قتل کو 23 اکتوبر2023 کو ایک سال ہو چکا ہے۔ ان کی اہلیہ جویریہ صدیق کو کینیا کی عدالت سے رجوع کرنا پڑا۔ جویریہ بتاتی ہیں کہ ان کے شوہر ارشد شریف کے قتل کیس میں ’حکومتی سطح پر ان کے قاتلوں کو پکڑنے کی بھرپور کوشش نہیں کی گئی۔‘ کینیا کی عدالت میں کیس بھی انہوں نے ذاتی حیثیت میں کیا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جرنلسٹ پروٹیکشن بل پر بات ہونی چاہے۔ اس پر مکمل طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے تاکہ صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی روک تھام کی جا سکے۔‘
براڈکاسٹ جرنلزم کا تجربہ رکھنے والی پاکستانی صحافی عائشہ خالد کا کہنا ہے کہ پاکستانی صحافیوں پر ہونے والے تشدد، اغوا اور قتل کا براہ راست اثر پوری صحافتی برادری پر پڑتا ہے۔ ’پچھلے دو سالوں میں ہی 11 صحافی مارے جا چکے ہیں۔ پاکستان کی میڈیا فریڈم رینکنگ 180 ممالک میں 150 ویں نمبر پر ہے جو خود بتاتی ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔‘
اے آر وائے ٹی وی کی رپورٹر سحرش کھوکھر کا کہنا ہے کہ ’ہم سب صحافی 70، 75 دنوں سے سندھ میں صحافی جان محمد مہر کے قتل کے خلاف احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ اس احتجاج کا مقصد صحافی کے قاتلوں کو گرفتار کرنا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں صحافیوں کے تحفظ کے لیے کوئی کام نہیں کیا جا رہا۔ قانون بنائے جا چکے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’ہم صحافی ریاست کا چوتھا ستون ہیں، خبر دینا ہمارا کام ہے۔ ادارے ہوں یا سیاسی اشرافیہ یا پھر طاقتور طبقہ، ان کے خلاف لکھنا، صحافیوں کا جرم بن جاتا ہے۔ آخر میں انسان مر جاتا ہے تو ہم صحافی برادری احتجاج کر لیتے ہیں، لیکن کیا ہوتا ہے؟‘
سحرش نے زور دیا کہ ’صحافی کی انشورنس کروانا اداروں کا کام ہے، جو لازمی ہونا چاہیے۔‘