تحقیق نے ڈائنوسار کے ختم ہونے کا ’معمہ حل کر دیا‘

محققین کا کہنا ہے کہ دھوئیں اور سیاہ کاربن نے فضا میں پہنچ کر سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا ہو گا جس کے نتیجے میں ’جوہری دھماکے نتیجے میں شروع ہونے والا چھوٹے برفانی دور‘ کا آغاز ہوا ہو گا۔

نیو یارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں 10 جولائی 2023 کو تقریباً 190 ملین سال پرانے ڈائنو سار ڈھانچے کی نمائش (ٹموتھی کلیری / اے ایف پی)

طویل عرصے یہ مانا جاتا رہا ہے کہ سیارچے کے زمین کے ساتھ ٹکرانے کے نتیجے میں ڈائنوسارز کے دور کا خاتمہ ہو گیا لیکن محققین نے انکشاف کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ایک بنیادی عمل نے ڈائنوسارز کے خاتمے میں اس سے زیادہ بڑا کردار کیا جو عموماً پہلے سمجھا جاتا تھا۔

تقریباً چھ کروڑ 60 لاکھ سال قبل جب ایک 10 سے 15 کلومیٹر چوڑا سیارچہ میکسیکو کے جزیرہ نما یوکاٹن سے ٹکرایا تو اس کے تصادم نے تباہی مچا دی۔ تصادم کے نتیجے میں جنگلوں میں آگ لگ گئی، زلزلے اور بہت بڑے سونامی آئے جس سے وہ ماحولیاتی نظام تباہ ہو گیا جس نے پودوں اور جانداروں کو پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کر رکھا تھا۔

نیچر جیو سائنس نامی جریدے میں شائع ہونے والی نئی رپورٹ میں محققین کا ماننا ہے کہ اگرچہ ان دیگر اثرات نے ڈائنوسار کی سینکڑوں اقسام کو شدید نقصان پہنچایا ہو گا لیکن گذشتہ مطالعات میں ایک اور اثر کے کردار کو نظر انداز کردیا گیا۔ یعنی اربوں ٹن دھول جو سیارچے کے زمین سے ٹکرانے کے بعد فضا میں پھیل گئی ہو گی۔

بیلجیم کے محققین کا ماننا ہے کہ اس سیارچے کی وجہ سے ’عالمگیر موسم سرما‘ کا آغاز ہوا کیوں کہ ریت اور گندھک کے ذرات سے بھری دھول کے سیاہ بادل فضا میں پھیل گئے جس سے سورج کی شعاعیں زمین پر پہنچنے سے رک گئیں اور عالمی سطح پر زمین کا درجہ حرارت 15 درجے سیلسیئس تک کم ہو گیا۔

کم روشنی کی وجہ سے پودوں کو بقا میں مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہو گا جس کی وجہ سے سبزی خور جانور بھوک کا شکار ہوئے اور گوشت خور جانور شکار سے محروم ہو گئے۔ خوراک کی قلت کی وجہ سے 75 فیصد جاندار ختم ہو گئے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ فضا میں گرد و غبار کی مقدار تقریباً دو ہزار گیگا ٹن تھی یعنی ماؤنٹ ایورسٹ کے وزن سے 11 گنا زیادہ۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین نے شمالی ڈکوٹا میں فوسل سائٹ کی تہہ سے ملنے والے مواد کی مدد سے کمپیوٹر کی مدد سے مخصوص ماحول تخلیق کیا جن سے انہیں پتہ چلا کہ دھول سورج کی روشنی کو دو سال تک زمین پر پہنچنے سے روک سکتی ہے اور ممکنہ طور پر 15 سال تک فضا میں موجود رہ سکتی ہے جس سے پودوں کی توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت محدود ہوجاتی ہے اور قدرتی ماحولیاتی نظام تباہ ہوجاتا ہے۔

مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس سیارچے کے زمین پر گرنے کا ابتدائی اثر شدید تھا لیکن اس سے ڈائنو سار فوری طور پر موت کے منہ میں نہیں گئے بلکہ ان کی موت چند برسوں میں بتدریج ہوئی۔

دیگر محققین کا ماننا ہے کہ سیارچے کے زمین کے ساتھ ٹکرانے کے اثرات بھی وہی ہو سکتے ہیں جو جوہری بم کے گرنے کے بعد ہوتے ہیں۔

لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر چیرلی ہیریسن کی سربراہی میں گذشتہ سال شائع ہونے والی رپورٹ میں محققین کا کہنا ہے کہ دھوئیں اور سیاہ کاربن نے فضا میں پہنچ کر سورج کی روشنی کو زمین تک پہنچنے سے روک دیا ہو گا جس کے نتیجے میں ’جوہری دھماکے نتیجے میں شروع ہونے والا چھوٹے برفانی دور‘ کا آغاز ہوا ہو گا۔

اگرچہ ڈائنوسار تقریبا چھ کروڑ 60 لاکھ سال پہلے تباہ کن انداز میں موت کا شکار ہوئے لیکن ان کا معدوم ہو جانا نسل انسانی کی ترقی کے لیے اہم ہوسکتا ہے۔

تحقیق کے شریک مصنف اور سیاروں پر تحقیق کرنے والے سائنس دان فلپ کلیس کا کہنا ہے کہ ’جب شہاب ثاقب ٹکرایا تو ڈائنوسارز کو زمین پر غلبہ حاصل تھا اور وہ آرام سے رہ رہے تھے۔‘

’میرے خیال میں اس تصادم کے بغیر ممالیہ جانوروں بشمول ہمارے اس سیارے پر غالب جاندار بننے کا امکان نہیں تھا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات