یوگا مرگی کے دوروں میں کمی کی وجہ بن سکتا ہے: سائنس دان

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوگا کرنے سے مرگی کے مریضوں کو پڑنے والے دوروں کی تعداد اور ان کی بے چینی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

21 جون، 2023 کی اس تصویر میں لاہور میں بین الاقوامی یوگا ڈے پر شرکا یوگا کے ایک سیشن میں شریک ہیں(اے ایف پی)

ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یوگا کرنے سے مرگی کے مریضوں کو پڑنے والے دوروں کی تعداد اور ان کی بے چینی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

طبی جریدے نیورولوجی میں گذشتہ ہفتے شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق اس عمل سے مریضوں کا مجموعی معیار زندگی بھی بہتر ہو سکتا ہے۔

نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) سے وابستہ اس تحقیق کی مصنفہ منجری ترپاٹھی نے کہا کہ ’مرگی کے مریضوں کو اکثر سٹگما(شخصی تعصب) کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی طبی حالت کے باعث دوسروں سے مختلف محسوس کرتے ہیں اور اس کا ان کے معیار زندگی پر نمایاں اثر ہوسکتا ہے۔‘

ڈاکٹر ترپاٹھی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’یہ سٹگما کسی شخص کی زندگی کو کئی طریقوں سے متاثر کر سکتا ہے جس میں علاج، ایمرجنسی ڈپارٹمنٹ جانا اور خراب ذہنی صحت شامل ہیں۔‘

اس مطالعے میں محققین نے انڈیا میں اوسط عمر 30 سال والے مرگی کے مریضوں کا جائزہ لیا۔

انہوں نے شرکا کے درمیان سٹگما کی پیمائش سوالات کے جوابات کی بنیاد پر کی جیسا کہ: ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ دوسرے لوگ آپ کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں؟‘ ’کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ معاشرے میں کچھ بھی حصہ نہیں ڈال سکتے؟‘ اور ’کیا آپ دوسرے لوگوں سے مختلف محسوس کرتے ہیں؟‘

اس کے بعد تقریباً 160 افراد کی نشاندہی کی گئی جو سٹگما کا سامنا کرنے کے معیار پر پورا اترتے تھے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ان مریضوں کو ہر ہفتے اوسطاً ایک دورہ پڑا اور دورے روکنے کے لیے اوسطاً کم از کم دو دوائیں لی گئیں۔

اس کے بعد بلا ترتیب مریضوں کے ایک گروپ کو یوگا تھراپی کا کہا گیا، جس میں پٹھوں کو ڈھیلا چھوڑنے، سانس لینے، مراقبہ اور مثبت سوچ کی مشقیں شامل تھیں۔

مریضوں کے ایک اور گروپ کو ایک جعلی تھراپی دی گئی جس میں انہی مشقوں کی نقل کی گئی تھی، لیکن ان شرکا کو یوگا کے دو اہم ، آہستہ اور ہم آہنگ انداز میں سانس لینے، اور جسم کی حرکات اور احساسات پر توجہ دینے کے بارے میں ہدایات نہیں دی گئیں۔

دونوں گروپوں کو تین ماہ کے دوران زیرنگرانی 45 سے 60 منٹ کے سات گروپ سیشن ملے۔

انہیں ہفتے میں کم از کم پانچ بار 30 منٹ کے لیے گھر پر سیشن کی مشق کرنے اور ایک کتابچے میں اپنے دورے اور یوگا سیشن کے متعلق لکھنے کے لیے بھی کہا گیا۔

تھراپی کے پہلے تین ماہ بعد شرکا کی اضافی تین ماہ تک نگرانی کی گئی۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جو لوگ یوگا کرتے تھے ان کے دورے کی فریکوئنسی چھ ماہ کے بعد نصف سے زیادہ کم ہونے کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں چار گنا سے زیادہ تھا جو جعلی یوگا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محققین کا کہنا ہے کہ جعلی مشق کرنے والوں کے مقابلے میں، یوگا کرنے والے شرکا میں ان کی بیماری کے متعلق سٹگما کم ہونے کا امکان زیادہ تھا۔

تحقیق کے مطابق جنہوں نے یوگا کیا انہیں دورے نہ پڑنے کے امکانات ان لوگوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ تھے جنہوں نے یہ اس کی جعلی مشق کی تھی۔

محققین نے یوگا کرنے والوں میں اضطراب کی علامات میں ان کی نسبت نمایاں کمی دیکھی جنہوں نے یوگا نہیں کیا۔

محققین نے لکھا، فالو اپ پیریڈ ختم ہونے کے بعد مداخلت والے گروپ نے کنٹرول گروپ کے مقابلے میں اضطراب کی کیفیت اور دماغی صلاحیتوں میں بہتری، باخبر رہنے اور معیار زندگی کی علامات میں نمایاں بہتری دکھائی۔

ڈاکٹر ترپاٹھی نے کہا کہ ’یوگا نہ صرف سٹگما کم کرنے میں مدد کرسکتا ہے، بلکہ معیار زندگی اور کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، یوگا کو کم سے کم وسائل اور لاگت کا استعمال کرتے ہوئے آسانی سے پہلے ہی ریکارڈ کیا اور مریضوں کے ساتھ آن لائن شیئر کیا جاسکتا ہے۔‘

مطالعے کی خامیوں کا حوالہ دیتے ہوئے محققین نے کہا کہ شرکا نے اپنے دورے کی فریکوئنسی کی خود معلومات دی اور ہوسکتا ہے کہ انہیں تمام معلومات درست طریقے سے یاد نہ ہوں۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ نتائج سے ’سٹگما کا شکار مرگی کے مریضوں کے لیے متبادل علاج اور سرگرمیوں پر غور کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق