اسرائیل کی غزہ کے خلاف جارحیت کے 37 تکلیف دے دن مکمل ہوچکے ہیں۔ نہ بمباری اور نہ زمینی کارروائی میں کوئی کمی آئی ہے۔ غزہ کا انفراسٹرکچر تباہ کیا جا رہا ہے، تو ایسے میں اسرائیل کے اس ’اندھے انتقام‘ کے پیچھے کیا عوامل متحرک ہیں؟
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد اسرائیل کی وزارت انٹیلی جنس نے ایک خوفناک دستاویز تیار کی۔
اس دستاویز میں اس بات کی وکالت کی گئی کہ اسرائیل غزہ کی تمام فلسطینی آبادی کو بےدخل کر دے اور اسے مصر کے جزیرہ نما سینا میں زبردستی آباد کرے۔
نومبر میں تل ابیب میں انتہائی دائیں بازو کی ریلی کی تشہیر کرنے والے ایک پوسٹر پر ساحل سمندر پر موجود (مستقبل کے غزہ کے تصور کے بارے میں قیاس کے طور پر) دو خوبصورت یہودی اسرائیلی بچوں کی تصویر لگائی گئی تھی جس کے نیچے ’قبضہ کرو، نکالو، بس جاؤ‘ کے تکلیف دہ الفاظ درج تھے جن سے جارحانہ پالیسی کا اظہار ہوتا ہے۔
سب سے زیادہ تشویش ناک بات ایک اسرائیلی وزیر کا یہ کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی پر جوہری ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔
کیا یہ اشتعال انگیز اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتی بیان بازی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ غزہ کے لیے اسرائیل کا طویل مدتی منصوبہ علاقے میں نسل کشی کے ساتھ ساتھ وہاں نسلی صفائی کرنا بھی ہے؟
اس بات کے بہت کم شواہد پائے جاتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت ان پریشان کن مقاصد کو حاصل کرنے کا کوئی ارادہ یا صلاحیت رکھتی ہے۔
اس جانب امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے بدھ آٹھ نومبر کو اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل غزہ کا انتظام نہیں چلا سکتا، لیکن جاری جارحیت کے اختتام پر ایک ’عبوری دور‘ ممکن ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹوکیو میں جی سیون وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا ’یہ واضح ہے کہ اسرائیل غزہ پر قبضہ نہیں کر سکتا۔‘
اسرائیل کے علاقائی اور بین الاقوامی شراکت دار مصر اور امریکہ آبادی کی منتقلی کے عمل کو سختی سے مسترد کر چکے ہیں۔
اردن نے مزید آگے بڑھتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ایسی کسی بھی کوشش کا مطلب ’اعلان جنگ‘ ہو گا۔
دی کنورسیشن میں ڈرہم یونیورسٹی کے لیکچرر روب گیسٹ پنفولڈ نے لکھا کہ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اسرائیل غزہ کے کچھ حصوں پر غیر معینہ مدت کے لیے قبضہ کر لے گا۔
اس کے ساتھ اس کا بھی قوی امکان ہے کہ اسرائیل علاقے کے دوسرے حصوں میں شہریوں کے معمولات زندگی اور حکمرانی کی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کرے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ہم غزہ پر حکومت نہیں کرنا چاہتے‘ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کو علاقے میں ’غیر معینہ مدت‘ کے لیے ’مجموعی طور پر سکیورٹی کی ذمہ داری‘ ادا کرنی چاہیے۔
یہ حکمت عملی اس منظر نامے کو نمایاں کرتی ہے کہ اسرائیل نے جاری جارحیت کے بعد کے دنوں کے لیے کیا منصوبہ بنا رکھا ہے۔
روب لکھتے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل غزہ کے شہری علاقوں پر طویل عرصے تک کنٹرول نہیں رکھ سکے گا۔
مثال کے طور پر اسرائیل مقبوضہ علاقے میں روزمرہ کے امور کا انتظام کرنے سے گریز کرتا ہے۔ وہ غزہ میں صحت، تعلیم اور فلاح و بہبود کی وزارتوں کی نگرانی سے گریز کرے گا۔
اسی طرح آئی ڈی ایف کے منصوبہ ساز جانتے ہیں کہ گنجان آباد شہری علاقے میں طویل عرصے تک فوج کی موجودگی آپریشنل اعتبار سے ڈراؤنا خواب ہو گی۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسرائیل ’سٹریٹجک گہرائی‘ کی اپنی پالیسی شاید بحال کر سکتا ہے۔
یہ ایک ایسا نظریہ ہے جس کے تحت کم آبادی والے غیر ملکی علاقے کو غیرمعینہ مدت تک قبضے میں رکھنا ہے۔ اسرائیل کی پہلے دن سے زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ اہم حکمت عملی رہی ہے۔
البتہ خیال یہ ہے کہ کسی بھی لڑائی کو اسرائیل سے باہر ہی رکھا جائے۔ اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے جس نے تمام ہمسایوں کے ساتھ جنگ شروع کر رکھی ہے اور اس کے نتیجے میں اس نے صورت میں اپنے آپ کو زیادہ محفوظ خیال کیا ہے کہ اگر اس کے پاس اس کی تسلیم شدہ سرحدوں سے باہر مزید علاقہ ہو۔
سٹریٹجک گہرائی کے نظریے اور سویلین حکمرانی سے خود کو الگ رکھنے کی اسرائیل کی خواہش سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی فوج غزہ کے کچھ علاقوں پر غیر معینہ مدت کے لیے قبضہ کرنے کی کوشش کرے لیکن پورے غزہ پر نہیں۔
مشرق وسطیٰ کے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اسرائیلی جس انداز میں غزہ کا انتظامی ڈھانچہ تباہ کر رہے ہیں اس کا مقصد اس علاقے کو ناقابل انتظام بنانا ہے۔
وہ جس انداز سے یونیوسٹیوں اور ہسپتالوں کو ملیا میٹ کر رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ یا تو بعض علاقوں کو ناقابل رہائش یا ناقابل انتظام بنانا چاہتا ہے۔
اس بات کے نمایاں شواہد موجود ہیں کہ حالات کیا ہو سکتے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع یوآو گلانت نے غزہ اور اسرائیل کی سرحد کے مغرب میں مستقل ’بفر زون‘ قائم کرنے پر زور دیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے غزہ کے اندر علاقے کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے اور اس کے شہروں کا محاصرہ کر رکھا ہے جب کہ وہاں طویل عرصے تک موجود رہنے سے گریز کر رہی ہے۔
اس دوہری حکمت عملی کے حوالے سے جو مسئلہ درپیش ہے اس کی جھلک غزہ میں اسرائیل کے گذشتہ تجربات میں دیکھی جا سکتی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس حکمت عملی نے اسرائیل کے سلامتی کے اہداف کو شاذ و نادر ہی پورا کیا۔
2005 میں انخلا سے قبل اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے کم آبادی والے لیکن آپریشنل اعتبار سے اہم حصوں کے تقریباً 20 فیصد پر قبضہ کر لیا تھا جس میں سڑکیں اور سرحد کے قریب سٹریٹجک ٹھکانے بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے 1990 کی دہائی کے اوائل میں باقی ماندہ 80 فیصد علاقے میں شہری علاقوں کو فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے حوالے کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹریٹجک ڈیپتھ بھی اسرائیلی شہریوں کو بچانے میں ناکام رہی۔ غزہ کے 20 فیصد حصے پر اسرائیلی فوج کے قبضے کے باوجود حماس کے راکٹ آسانی سے فوجیوں کے اوپر سے گزرنے اور خود اسرائیل تک پہنچنے کے قابل تھے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل غزہ کی سویلین حکمرانی کی ذمہ داری سے گریز اور حماس کو دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا موقع دے سکتا ہے۔
بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کی حوصلہ افزائی کی ہے کہ وہ غزہ کے شہری علاقوں میں فلسطینی اتھارٹی کو بااختیار بنائے۔
اس کے باوجود اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کی حکومت فلسطینی اتھارٹی کو حکومت سونپنے کے عمل کو مسترد کر دے گی کیوں کہ اس سے فلسطینی ریاست کے قیام کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
فلسطینی اتھارٹی پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہے جس کی وجہ طویل عرصے سے جاری بدعنوانی اور اسرائیل کی جانب سے اس کے اختیارات کو محدود کرنے کی پالیسی ہے، خاص طور پر نیتن یاہو کے دور میں جنہوں نے غزہ میں مسابقتی قوت کے طور پر حماس کی خاموش حمایت کی۔
اس طرح یہ واضح نہیں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کبھی پورے آزاد فلسطین پر حکمرانی کرنے کی صلاحیت حاصل کر پائے گی۔
اس سے ایک کھلا سوال پیدا ہوتا ہے جس کا اسرائیلی حکومت فی الحال جواب نہیں دے سکتی۔ یعنی اگر اسرائیلی فوج حماس کو ہٹا دیتی ہے تو غزہ پر کون حکومت کرے گا؟
اس کے ساتھ ہی اسرائیل نے یکطرفہ طور پر غزہ کی سرحد پر چار سو میٹر کے بفر زون کا اعلان کیا۔ سینسرز، ڈرونز، دیواروں اور نگرانی کے ٹاورز کے پیچیدہ نیٹ ورک کے ذریعے اس علاقے پر نظر رکھی گئی۔
اسرائیل اکثر اس علاقے میں کسی بھی غیر مجاز نقل و حرکت کی صورت میں فائرنگ کرتا ہے۔
یہ حکمت عملی سات اکتوبر کے حملے روکنے میں ناکام رہی۔ اسرائیلی فیصلہ سازوں سوچنا ہو گا کہ حماس سے نمٹنے کے بعد حفاظتی نظام کیسے بہتر بنایا جائے تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ وہ اس بارے میں غور کر رہے ہیں۔