انڈیا میں جاری آئی سی سی ورلڈکپ 2023 اپنے اختتام کے قریب پہنچ گیا ہے۔ جس وقت آپ یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے۔ انڈیا اور نیوزی لینڈ ممبئی کے وانکھیڈے سٹیڈیم میں فائنل میں رسائی کی جنگ لڑ رہے ہوں گے۔
انڈیا جو اس ورلڈکپ میں اب تک ناقابل شکست ٹیم ہے اور جس نے تمام گروپ میچ یکطرفہ طور پر جیتے ہیں اسے سیمی فائنل میں بھی یکطرفہ جیت کی امید ہے۔
شاید پہلا سیمی فائنل اپنے کھیل اور نتیجے سے کوئی سنسنی نہ پیدا کر سکے لیکن دوسرا سیمی فائنل جمعرات کو کولکتہ میں آسٹریلیا اور ورلڈکپ کی دوسری بہترین ٹیم جنوبی افریقہ کے درمیان کھیلا جائے گا۔
شائقین کرکٹ کی زیادہ نگاہیں اس ٹکر کے مقابلے پر ہیں۔ ہر آنکھ کو یہی امید ہے کہ ایک ایسی کرکٹ جنگ دیکھنے کو ملے گی جس میں آخری گیند تک مقابلہ ہوگا۔
ایک طرف اگر چار مرتبہ کی عالمی چیمپئین آسٹریلیا ہے تو دوسری طرف متعدد بار کا سیمی فائنلسٹ جنوبی افریقہ ہے۔
اگرچہ جنوبی افریقہ نے اب تک بہترین کارکردگی دکھائی ہے اور اپنے جارحانہ کھیل سے ہر دل موہ لیا ہے تو دوسری طرف آسٹریلیا نے ابتدائی میچز ہارنے کے باوجود گروپ کا اختتام مخصوص انداز میں کیا ہے۔
جنوبی افریقہ کی اصل طاقت
اگر جنوبی افریقہ کی اصل طاقت کا احاطہ کیا جائے تو وہ ان کی بے خوف نڈر اور پرجوش بیٹنگ ہے جس نے ہر حریف ٹیم کوپریشان کیے رکھا۔
اوپنر کوئنٹن ڈی کاک نے نو میچوں میں 591 رنز بنائے جن میں چار سنچریاں شامل ہیں جو انڈین کپتان روہت شرماکی پانچ سنچری کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ روہت نے 2019 کے ورلڈکپ میں پانچ سنچریاں بنائی تھیں۔
کوئنٹن ڈی کاک سیمی فائنل میں سب سے اہم بلے بازہوں گے اور اگر ان کا بیٹ چل گیا تو پھر کینگروز کے لیے دم لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔
جنوبی افریقہ کے دوسرے سب سے خطرناک بلے باز ہنری کلاسن ہیں اپنی طوفانی بیٹنگ سے وہ 50 بند بھی توڑ سکتے ہیں ان کی اننگز بہت اہم ہوگی۔
ایڈم مارکرم اور ڈیوڈ ملر دیگر خطرناک بلے بازہیں ان کے ساتھ آل راؤنڈر مارکو جانسن بھی بولنگ پر ستم ڈھاسکتے ہیں۔
خاموش خطرناک بلے باز فان دا ڈاسن ہیں وہ جنوبی افریقہ کی اننگز کو تعمیر کرتے ہیں۔ اور لمبی اننگز کھیلتے ہیں۔ یہ چھ بلے باز اگر اپنےاصلی رنگ میں کھیل گئے تو شاید آسٹریلیا کے لیے سیمی فائنل آخری میچ ہوگا۔
جنوبی افریقہ کے لیے سب سے بڑا سوال کپتان ٹامبا باووما کی شمولیت ہوگی۔ کیا وہ کھیلیں گے یا پھر ریزی ہینڈرک کو جگہ دیں گے۔
آسٹریلیا کی بیٹنگ کا زور کس پر؟
آسٹریلیا کی ٹیم کسی بھی طرح بیٹنگ میں جنوبی افریقہ سے کم نہیں۔ گلین میکسویل نے جو اننگز افغانستان کے خلاف کھیلی اسے اب تک ایک روزہ کرکٹ کی سب سے بہترین اننگز کا اعزاز حاصل ہوچکا ہے۔
دنیائے کرکٹ نے اسے حیرت انگیز دیومالائ اننگز قراردیا ہے۔ میکسویل افریقی بولنگ کا ڈراؤنا خواب بن سکتے ہیں۔ دوسرے جو خطرناک بلے باز ہیں وہ مچل مارش ہیں۔ مارش کو اس ورلڈکپ میں تیز ترین شاٹس کا بادشاہ کہا جا رہا ہے۔
وہ چشم زدن میں گیند باؤنڈری سے باہر پہنچادیتے ہیں۔ ڈیوڈ وارنر اگرچہ بہت اچھی فارم میں نہیں ہیں لیکن وہ بھی خطرناک ہوسکتے ہیں۔
آسٹریلیا کے لیے سب سے بڑا سوال ہوگا کہ ٹریوس ہیڈ کھیلیں یا پھر سٹیو سمتھ۔ کی فارم کو دیکھتے ہوئے شاید ٹریوس ہیڈ کھیل جائیں۔
آسٹریلیا کے لیے فکر کی بات مڈل آرڈر کا کئی میچوں میں جلدی آؤٹ ہو جانا ہے۔ افغانستان کے خلاف مڈل آرڈر نے مایوس کیا تھا۔ تاہم کینگروز کی بیٹنگ جنوبی افریقہ کے ہم پلہ ہے۔
کس کی بولنگ بہتر ہے؟
اگر دونوں کی بولنگ کا جائزہ لیں تو آسٹریلیا کی بولنگ زیادہ قوی نظر آتی ہے۔ مچل سٹارک کی فاسٹ بولنگ کے ساتھ جوش ہیزلووڈ اور پیٹ کمنز کی نپی تلی میڈیم پیس بولنگ جنوبی افریقہ کو سخت وقت دے گی لیکن سب سے اہم لیگ سپنر ایڈم زمپا کی بولنگ ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
22 وکٹوں کے ساتھ وہ حیران کن کارکردگی دکھارہے ہیں۔ ان سے اتنی زبردست کارکردگی کی امید نہیں تھی لیکن وہ بیٹسمینوں کے لیے خطرناک بن گئے جن کی کرکٹ کی ابتدا سپن بولنگ کو کھیل کر ہوتی ہے۔
زمپا جنوبی افریقہ کے ایک حقیقی خطرہ ہیں اور میچ کا رخ بدل سکتے ہیں اور میچ ونر بن سکتے ہیں۔
آسٹریلیا کا اصل مسئلہ ایک سپنر کی کمی ہے میکسویل دوسرے سپنر ہیں مگر بہت مہنگے رہے ہیں شاید یہی وہ موڑ ہوگا جب پانچویں بولر کی کمی محسوس ہوگی۔
جنوبی افریقہ کی بولنگ کا سارا حسن ڈیبیو کرنے والے گرالڈ کوئٹزی میں پوشیدہ ہے۔
انہوں نے ہر مشکل وقت میں افریقہ کو وکٹ دلاکر کامیاب کیا ہے۔ ان کے ساتھ دوسرے اہم بولر مارکو جانسن ہیں۔
بائیں بازو سے انہوں نے تیز ترین سپیل کرکے جنوبی افریقہ کی بالادستی قائم کی ہے۔
سپنر کیشو مہاراج نے بھی اس ورلڈکپ میں عمدہ بولنگ کی ہے وہ کینگروز کو پریشان کریں گے۔
جنوبی افریقہ بھی ایک سپنر کی کمی کا شکار ہے۔ مارکرم بولنگ کر رہے ہیں لیکن وہ جزوقتی بولر ہیں۔
ہم اب چوکر نہیں
جنوبی افریقہ کی ٹیم اب تک کوئی ٹورنامنٹ نہیں جیت سکی ہے۔ ہر دور میں مضبوط ٹیم ہونے کے باوجود آخر میں منزل کے قریب آ کر لڑکھڑا جاتی ہے۔
جتنے ٹورنامنٹ اس ٹیم نے بہترین آغاز کے باوجود اختتام کے قریب ہار دیے ہیں اس سے اس کا نام ہی چوکر پڑ گیا ہے۔
تمام ناقدین اس کی شاندار کارکردگی کے باوجود اسے چیمپئنز کی فہرست سے نکال دیتے ہیں لیکن کپتان باووما کا اب دعوی ہے کہ جنوبی افریقہ مزید چوکر نہیں ہے اور فائنل تک پہنچے گی اور جیتے گی۔
جنوبی افریقہ کے دعوے کے باوجود شائقین کرکٹ کو آسٹریلیا کو فاتح دیکھ رہے ہیں ان کے خیال میں کچھ نیا ہونے کی امید نہیں ہے۔
تاہم بارش ہوجانے کے باعث اگر ریزرو ڈے بھی میچ نہ ہوسکا تو زیادہ پوائنٹس ہونے کے باعث جنوبی افریقہ پہلی دفعہ کسی فائنل میں رسائی حاصل کرلے گا۔
کولکتہ کا ایڈن گارڈن جمعرات کو مکمل بھر جانے کی توقع ہے ایک لاکھ سے زائد تماشائیوں کے سامنے دونوں ٹیموں کے درمیان ایک ایسے مقابلے کی توقع ہے جس میں کھلاڑیوں کے ساتھ شائقین بھی انگشت بدنداں ہوں گے۔
لیکن ہر چہرے پر ایک سوال ہوگا کہ کیا جنوبی افریقہ کی ٹیم آخری وقت میں لب بام رہ جانے کی روایت توڑ دے گی یا پھر ہر رکاوٹ کو روندتی ہوئی احمد آباد پہنچے گی اورانڈیا یا نیوزی لینڈ کا مقابلہ کرے گی۔
بس ایک دن اور۔۔۔۔ دیکھنا ہے کہ داغ مٹ جائے گا یا مزید گہرا ہوجائے گا۔