آئی ایم ایف سے معاہدہ طے: پاکستان کو 70 کروڑ ڈالر ملیں گے

آئی ایم ایف کے مطابق تین بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے پہلے جائزے پر پاکستان کے ساتھ معاہدہ طے ہوا، جس کی ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد اسلام آباد کو 70 کروڑ ڈالر ملیں گے۔

پاکستان میں آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر اور ادارے کی پاکستان میں نمائندہ ایستھر پاریز نگران وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ سے 15 نومبر 2023 کو اسلام آباد میں ملاقات کر رہے ہیں (ایوان وزیر اعظم)

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق فنڈ نے تین بلین ڈالر کے بیل آؤٹ کے پہلے جائزے پر پاکستان کے ساتھ عملے کی سطح پر معاہدہ کیا ہے، جس کی ایگزیکٹو بورڈ سے منظوری کے بعد اسلام آباد کو 70 کروڑ ڈالر ملیں گے۔

جون میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے پاکستان کے ساتھ ’معاشی استحکام کے پروگرام کی حمایت‘ کے لیے انتہائی ضروری نو ماہ کے اسٹینڈ بائی ارینجمینٹ (ایس بی اے) کی منظوری دی تھی، جس کی وجہ سے فوری طور پر اسلام آباد کو 1.2 ارب ڈالر موصول ہوئے تھے۔

آئی ایم ایف کے تکنیکی عملے نے 2 نومبر کو قلیل مدتی قرض کے معاہدے کا پہلا جائزہ شروع کیا تھا جو 10 نومبر کو ختم ہوا۔

آئی ایم ایف کے مطابق ایس بی اے کے پہلے جائزے پر بات چیت کے لیے اس کے اہلکار نیتھن پورٹر کی قیادت میں ایک ٹیم اسلام آباد میں موجود تھی۔

نیتھن پورٹر کی جانب سے بدھ کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا:

’آئی ایم ایف کی ٹیم نے آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر ایس بی اے کے تعاون سے اپنے استحکام پروگرام کے پہلے جائزے پر پاکستانی حکام کے ساتھ عملے کی سطح کا معاہدہ کیا ہے۔

’معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے۔ منظوری کے بعد تقریباً 70 کروڑ ڈالر دستیاب ہو جائیں گے اور پروگرام کے تحت کل تقسیم تقریباً 1.9 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔‘ 

انہوں نے کہا کہ مالی سال 2024 کے بجٹ پر ثابت قدمی سے عمل در آمد، توانائی کی قیمتوں میں مسلسل ایڈجسٹمنٹ، اور زرمبادلہ کی مارکیٹ میں نئے بہاؤ نے مالی اور بیرونی دباؤ کو کم کیا ہے۔

’آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں کمی کی توقع ہے۔ تاہم پاکستان اہم بیرونی خطرات کے لیے حساس ہے، جن میں جغرافیائی سیاسی تناؤ کی شدت، اجناس کی دوبارہ بڑھنے والی قیمتیں، اور عالمی مالیاتی حالات میں مزید سختی شامل ہیں۔ لچک پیدا کرنے کی کوششوں کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔‘

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا نے  کہا کہ پاکستان کا دورہ کرنے والا جائزہ مشن قرض کی آئندہ قسط کے اجرا کے معاہدے کے قریب ہے اور یہ ’کسی بھی دن ہو سکتا ہے۔‘

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)  کا ایک وفد فنڈ کے اعلیٰ عہدیدار ناتھن پورٹر کی سربراہی میں دو نومبر سے پاکستان کے دورے پر ہے جہاں وہ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر سمیت دیگر حکام سے ملاقاتوں میں پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ (ایس بی اے) کے پہلے جائزے پر تفصیلی بات چیت کر چکا ہے۔

آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا انٹرویو بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے بلوم برگ پر نشر ہوا ہے جس میں ٹی وی میزبان نے جب ان سے پاکستان سے متعلق سوال پوچھا تو کرسٹالینا کا کہنا تھا کہ معاہدے کے قریب ہیں۔ ’ہم توقع کرتے ہیں کہ جائزے پر معاہدہ ایک ہفتے کے اندر ہو جائے گا، تو اب یہ کسی بھی دن ہو جائے گا۔‘

کرسٹالینا جارجیوا نے کہا کہ پاکستانی حکام اور وزیر خزانہ شمشاد اختر کی کوششیں ستائش کے قابل ہیں کیوں کہ ’وہ بہت مشکل وقت میں آئی ایم ایف پروگرام پر کاربند رہے۔‘

ٹی وی میزبان نے کرسٹالینا سے سوال کیا کہ پاکستانی معیشت کا اہم مسئلہ ہے کیا تو انہوں نے کہا کہ ’ٹیکس محصولات۔‘

آئی ایم ایف کی مینجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ ’اس وقت پاکستان جی ڈی پی (یعنی ملک کی مجموعی قومی پیدوار) کا 12 فیصد ٹیکس وصول کرتا ہے اور ہم کہہ رہیں کہ یہ کم از کم 15 فیصد ہونا چاہیے۔‘

 

دو ہفتوں پر محیط اس دورے کے دوران آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کو پاکستان کی معاشی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی طرف سے اٹھائے جانے والے مالیاتی اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔

پاکستانی وزارت خزانہ سے گذشتہ ہفتے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے جائزہ مشن کے سربراہ ناتھن پورٹر نے پہلی سہ ماہی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے حکومت کے عزم کو سراہا اور کچھ اہم شعبوں میں حکومت کی کوششوں اور اقدامات کی تعریف کی۔ انہوں نے ملک کے معاشی استحکام کے لیے ان کوششوں کو جاری رکھنے کی اہمیت پر بھی مزید زور دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کو آئی ایم ایف سے رواں برس جولائی میں پہلی قسط کے طور پر 1.2 ارب ڈالرز موصول ہوئے تھے۔ آئی ایم ایف سے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ میں یہ طے پایا تھا کہ لگ بھگ 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط کی ادائیگی کے بعد  بقیہ 1.8 ارب ڈالر دو اقساط میں پاکستان کو نو مہینے کے دوران ملیں گے اور ہر قسط کے اجرا سے قبل مالیاتی اصلاحات کا جائزہ لیا جائے گا۔

نو ماہ پر محیط سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے بارے میں معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ’سٹینڈ بائی ارینجمنٹ‘ مختصر مدت کے لیے کسی ملک کی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے، یہ ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی‘ (ای ایف ایف) سے مختلف ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ’ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی‘ کے تحت 2019 میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن قرض کی آخری قسط کا اجرا گذشتہ سال نومبر سے تاخیر کا شکار تھا۔

اس دوران پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا اور عارضی طور پر معاشی دشواریوں کو دور کرنے اور معاشی اصلاحات لانے کے لیے پاکستان کو سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی صورت میں عارضی حل دستیاب ہوا۔

عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے کچھ مثبت اشارے پاکستان کی معیشت میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں اور نہ صرف سٹاک ایکسچینج میں کاروبار میں بہتری آئی ہے بلکہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بھی قدرے استحکام آیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت