’نیا پنڈورا باکس‘: پی ٹی آئی 20 دن میں انٹرا پارٹی الیکشن کروا سکے گی؟

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان برقرار رکھنے کے لیے 20 دن میں انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے کے حکم پر پاکستان تحریک انصاف کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔

 پاکستان تحریک انصاف کے حامی 29 اپریل 2013 کو مری میں انتخابی مہم کے جلسے کے دوران پارٹی چیئرمین عمران خان کا خطاب سن رہے ہیں (عامر قریشی / اے ایف پی)

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے بلے کا انتخابی نشان برقرار رکھنے کے لیے 20 دن میں انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے کے حکم پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔

پارٹی قیادت اور مرکزی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ سینکڑوں متحرک اراکین بھی جیلوں میں ہیں، لہذا ان حالات میں دوبارہ پارٹی الیکشن منعقد کروانا آسان دکھائی نہیں دیتا۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو ’متعصبانہ‘ قرار دیتے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات 13 جون 2021 تک ہونا تھے جو نہ ہو سکے، جس کے بعد اسی سال اگست میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سیاسی جماعت کو ایک سال کی توسیع دی۔

تاہم پی ٹی آئی کا مؤقف تھا کہ پارٹی انتخابات جماعت کے آئین میں ترمیم سے پہلے کروائے گئے تھے، جبکہ الیکشن کمیشن کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی نے گذشتہ سال آٹھ جون کو اپنے آئین میں ترمیم کی اور دو روز بعد (10 جون 2022) کو انٹرا پارٹی انتخابات کروائے۔

بعدازاں پی ٹی آئی کی جانب سے اس کے ترمیم شدہ آئین کی کاپی الیکشن کمیشن کے پاس جمع کروائی، جسے کمیشن نے ناکافی قرار دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے گذشتہ روز پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق 13 ستمبر کو محفوظ شدہ فیصلہ سنایا اور پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 20 دن میں دوبارہ الیکشن کا حکم دیا۔

’نیا پنڈورا باکس‘

اس حوالے سے سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن دوبارہ کروانے سے متعلق جو فیصلہ دیا ہے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ دیگر تمام جماعتوں کے انٹرا پارٹی الیکشن میں بھی ایسے ہی نامزدگیاں ہوتی ہیں جیسے تحریک انصاف کروا چکی ہے۔‘

کنور دلشاد کے مطابق: ’الیکشن قریب ہے، معاملہ عدالت گیا تو نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا۔‘

فیصلے پر عمل نہ کرنا نقصان دے ہوسکتا ہے؟

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین امجد شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی کے اپنے ایک گروپ نے انٹرا پارٹی الیکشن کو چیلنج کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات کو اس لیے کالعدم قرار دیا کہ پارٹی آئین کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔ جس طرح ماضی میں وجیہہ الدین کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا تنازع کھڑا ہوا تھا۔ وہ الیکشن بھی پی ٹی آئی میں گروپنگ کا سبب بنے تھے، انہیں بھی تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔‘

بقول امجد شاہ: ’اب بھی اسی طرح غیر قانونی طریقے سے الیکشن ہوئے جو کالعدم قرار دیے گئے۔ عدالت سے اس فیصلے کے خلاف رجوع کیا جاسکتا ہے لیکن میں نہیں سمجھتا کہ عدالت ان انتخابات کو پارٹی آئین کے مطابق قرار دے گی، اس لیے تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ دوبارہ اپنے پارٹی آئین کے مطابق الیکشن کروا لے۔ الیکشن کمشین نے عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے 20 دن کا وقت دیا ہے، اس لیے اسے ضائع کرنے سے مشکلات مزید بڑھیں گی۔‘

کنور دلشاد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں مزید کہا کہ ’الیکشن کمیشن کی جانب سے جو فیصلہ دیا گیا ہے اس کے مطابق تحریک انصاف کو دوبارہ الیکشن کروانا پڑیں گے۔ اگر انہوں نے عدالت سے رجوع کیا اور موقف اختیار کیا کہ دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے انتخاب بھی آئینی تقاضے پورے نہیں کرتے اور وہ بھی نامزدگیاں ہی کرتے ہیں تو اس صورت میں ایک نیا پنڈورا باکس کھل جائے گا اور عدالت عام انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے اس معاملے کو زیادہ طویل نہیں کرنا چاہے گی۔‘

ان کے بقول: ’عدالت الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار بھی رکھ سکتی ہے۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کو دوبارہ الیکشن کروانا پڑیں گے۔ ان حالات میں تحریک انصاف کے لیے انٹرا پارٹی کروانا اگرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ وہ بھی دوسری جماعتوں کی طرح پارٹی عہدوں پر بلا مقابلہ نامزدگیاں کر سکتے ہیں۔‘

کنور دلشاد کے مطابق: ’تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن کے فیصلے پر عمل تو لازمی کرنا ہوگا جب تک عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار نہ دے۔‘

عمران خان چیئرمین اور انتخابی نشان برقرار رہیں گے؟

اس سوال پر ہائی کورٹ بار لاہور کے سابق صدر مقصود بٹر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’عمران خان، شاہ محمود قریشی اور چوہدری پرویز الٰہی جیل میں بند ہونے کے باوجود قانونی طور پر الیکشن لڑ سکتے ہیں کیونکہ انہیں کسی عدالت کی جانب سے سزا نہین سنائی گئی اس لیے وہ کسی الیکشن کے لیے نااہل قرار نہیں دیے گئے۔ عمران خان کو جو سزا ہوئی تھی وہ کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ ’جہاں تک انتخابی نشان بلے کی بات ہے تو جب تک پی ٹی آئی کی رجسٹریشن موجود ہے، نشان انہی کا رہے گا۔ البتہ جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کوششیں جاری ہیں اور الیکشن کمیشن کی جانبداری پر بھی سوالات ہیں، پی ٹی آئی کے پاس ابھی عدالت سے رجوع کرنے اور دوبارہ پارٹی الیکشن کروانے کا آپشن موجود ہے۔‘

پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی ترجمان رؤف حسن کی جانب سے جاری ردعمل میں کہا گیا ہے کہ ’الیکشن کمیشن کا فیصلہ معتصبانہ ہے اور تحریک انصاف کو بھجوائے گئے نوٹس میں کمیشن کی جانب سے انٹرا پارٹی انتخابات کے غیر آئینی ہونے کے حوالے سے کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے بارہا درخواستوں کے باوجود انٹرا پارٹی انتخاب کے معاملے کو ایک مخصوص مقصد کے تحت بلاجواز التوا کا شکار کیے رکھا۔‘

ترجمان پی ٹی آئی کے مطابق: ’تحریک انصاف کی چیف الیکشن کمشنر سے ہونے والی دو ملاقاتوں میں پارٹی کو آئینی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کروائی گئی مگر فیصلہ اس کے برعکس دیا گیا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’بلا تحریک انصاف کا انتخابی نشان تھا، ہے اور ’بلے‘ کا نشان بیلٹ پیپر پر آئندہ بھی رہے گا۔ عمران خان چیئرمین پی ٹی آئی تھے، چیئرمین پی ٹی آئی ہیں اور انشا اللہ تاحیات چیئرمین پی ٹی آئی رہیں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست