ان دنوں گلگت بلتستان کی فضا میں پھر ہلچل کے آثار دکھائی دے رہے ہیں اور وجہ بن رہی ہے گندم، جس کی قیمت میں اضافہ متوقع ہے۔
گلگت بلتستان میں گندم کا آٹا پاکستان کے صوبوں کے مقابلے میں رعایتی نرخوں پر دستیاب ہے۔
پاکستان کے چار صوبوں میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت تقریباً 2800 روپے ہے، جب کہ گلگت بلتستان میں یہی تھیلا 540 روپے میں دستیاب ہے، لیکن یہ رعایتی آٹا راشن کارڈ کے ذریعے تین کلو فی فرد کے حساب سے ملتا ہے۔
اب اس رعایت کو ختم کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ وفاق کے دباؤ پر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت نے حال ہی میں اپنی کابینہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ رعایت ختم کر دی جائے۔
یہاں کے عوام کے لیے یہ بہت بڑا ایشو ہے، جس کی تہہ سے اب اضطراب کی لہریں بلند ہو رہی ہیں اور آگے جا کر عوامی سطح پر احتجاج کا منظر نامہ بن رہا ہے۔
اس ضمن میں عوام نے یکم دسمبر کو گلگت بلتستان کے 10 ضلعوں میں مکمل شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
گلگت بلتستان زیادہ تر سنگلاخ چٹانوں اور برفانی حصے پر مشتمل ہے لہٰذا یہاں زرعی زمین اور پیدوار بہت کم ہے۔ اوپر سے سرد منطقہ ہونے کی وجہ سے اکثر دیہاتوں اور گاؤں میں سال میں ایک ہی فصل تیار ہوتی ہے، جس کی وجہ سے فوڈ سکیورٹی کا ایشو بھی ابھر رہا ہے۔
ماہرین زراعت اور حکومتی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق گلگت بلتستان میں بمشکل دو فیصد رقبہ اراضی زراعت کے لیے دستیاب ہے۔
یہاں کے لوگ صدیوں سے روایتی طور پر گندم، جو، مٹر، مکئی، شلجم، آلو اور کچھ دیگر اشیا اگاتے چلے آ رہے ہیں۔
1974 میں ذوالفقار علی بھٹو نے جب گلگت بلتستان کے کونے کونے کا دورہ کیا تو ایک بات سامنے کھل کر آئی کہ اس پسماندہ خطے میں جہاں ذرائع حمل و رسد نہ ہونے کے برابر ہیں، وہیں زرعی پیداوار بڑھانے میں بھی فوری جدت لانے کے لیے وقت درکار ہے۔
لہٰذا اس وقت کی نزاکت اور ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے پورے گلگت بلتستان کو سبسڈی کی نرخ پر گندم فراہم کرنا شروع کر دی گئی۔ یہ سلسلہ بعد کی حکومتوں نے بھی جاری رکھا تاہم گذشتہ چند سالوں سے اس رعایتی قیمت کو ختم کرنے کے لیے وفاق سے صوبائی حکومتوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
گذشتہ صوبائی حکومت کو یہی مسئلہ درپیش آیا اور حکومتی فیصلے کے خلاف گلگت بلتستان میں شٹر ڈاؤن اور ہڑتالوں کا طویل سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت کی حکومت کو پیچھے ہٹنا پڑا۔
مختلف مذہبی جماعتوں، عوامی ایکشن کمیٹی اور سول سوسائٹی تنظیموں کی طرف سے حالیہ فیصلے کے تحت گندم کی قیمت بڑھانے کے اقدام کے خلاف ابتدائی ردعمل سامنے آیا ہے، جس کے تحت سبسڈی کے خاتمے کو گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے ساتھ مشروط کیا جا رہا ہے، ورنہ سخت احتجاج کی راہ اپنانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
ان عوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ جب تک خطے کی حیثیت کا تصفیہ نہیں ہوتا، تب تک یہاں نہ تو کوئی ٹیکس لگایا جا سکتا ہے اور نہ ہی سبسڈی ختم ہو سکتی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت دیگر اشیائے خورد و نوش پر بھی سبسڈی دی جانی چاہیے۔
اس سلسلے میں اقوام متحدہ کے قوانین کا حوالہ دیا جاتا ہے۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے کس طرح کے فیصلے دیے ہیں۔
1947-48 میں ڈوگرہ حکومت سے نجات پانے کے بعد گلگت بلتستان نے مرحلہ وار طریقے سے مملکت پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔
وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کو 1999 تک ایف سی آر اور مختلف لیگل فریم ورک آرڈرز کے تحت چلایا گیا، تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999 کے فیصلے کے بعد ان فریم ورک آڈرز میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں اور انتظامی ڈھانچے میں بعض ترامیم کی گئیں۔
حاجی گام سکردو کے انجینیئر غلام مرتضیٰ اور چند دیگر احباب نے وہاب الخیری کے ذریعے سپریم کورٹ میں یہی مدعا اٹھایا تھا، جو آج گلگت بلتستان کے ہر شخص کی نوک زباں پر ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ’چھ ماہ کے اندر اندر سیلف گورننس کا اختیار اور بنیادی انسانی حقوق دے جائیں اور اس ضمن میں آئین اور قانون میں جہاں جہاں ضرورت پڑے ترمیم یا تبدیلی لائی جائے۔‘
لیکن سپریم کورٹ کے فیصلے کی اصل روح کے مطابق اختیارات اور نمائندگی نہیں ملی، تاہم 2009 میں گلگت بلتستان گڈ گورننس آرڈر کے تحت کچھ اشک شوئی کرنے کی کوشش کی گئی۔
2018 میں ایک نیا صدارتی آرڈر جاری کیا گیا، جس کی خشت اول تو 2009 کا ہی آرڈر تھا لیکن اس میں کچھ نئی ترامیم کی گئیں اور پہلے کے صدارتی آرڈر کے اختیارات میں کچھ کمی کردی گئی۔
سپریم کورٹ میں یہ آرڈر چیلنج ہوا۔ اسی دوران دوسری حکومت آئی اور سپریم کورٹ نے اس وقت کی حکومت کو حکم دیا کہ 2018 کے آرڈر میں سرتاج عزیز کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مناسب تبدیلیاں کی جائیں۔
یوں 2019 گورننس آرڈر کا ڈرافٹ جمع کیا گیا جسے عدالت نے صدراتی حکم کے ذریعے جاری رکھنے کا حکم صادر کیا، تاہم اس مجوزہ آرڈر میں کسی بھی قسم کی رد و بدل کو سپریم کورٹ کی اجازت سے مشروط کیا گیا ہے۔
اس فیصلے میں گلگت بلتستان کی حثیت کو جموں و کشمیر کی آئینی پوزیشن اور اقوام متحدہ کی قراردادوں میں پاکستان کی Commitments کے تناظر میں دیکھنے پر زور دیا گیا۔ علاوہ ازیں فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان کی اس پوزیشن کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گلگت بلتستان کو انتظامی و دیگر اختیارات دیا جائے۔
یوں 2019 کے اس فیصلے کے مطابق گلگت بلتستان کو صریحاً کشمیر ایشو کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔
فدا محمد ناشاد صاحب گلگت بلتستان اسمبلی کے سابق سپیکر ہیں، اس سے بڑھ کر وہ صاحب علم ہیں اور تاریخ سے گہری شناسائی کے علاوہ وہ ملکی سطح کے سیاسی، داخلی اور خارجی قوانین سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
جب انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے گلگت بلتستان کو دی جانے والی مراعات کی قانونی حیثیت کے بارے میں دریافت کیا تو ان کہنا تھا کہ ’گو کہ 1948 کے معاہدہ کراچی کے دوران گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا، جس کے تحت حکومت پاکستان نے گلگت بلتستان کے انتظامی امور سنبھالے تھے، تاہم اس معاہدے کی ایک شق میں لکھا گیا ہے کہ حکومت پاکستان تمام پروکیورمنٹ اور سول سپلائی وغیرہ کی ذمہ دار ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسی پرویژن کے تحت یہاں پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا اور ساتھ ہی معاشی اور انتظامی اخراجات بھی وفاق کے ذمے ہیں۔‘
انہوں نے گندم سبسڈی کا پس منظر بتایا کہ ’جب 1974 میں ذوالفقار علی بھٹو دورے پر گلگت پہنچے تو جلسے میں اس وقت پیپلز پارٹی کے صدر ایڈووکیٹ جوہر علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ پاکستان نے نام نہاد معاہدہ کراچی کے نام سے ہماری ذمہ داریاں اٹھائی تھیں مگر یہ کیا کہ لگان اور مالیہ کے تحت ہمارا استحصال اب تک جاری ہے۔
’اس پر بھٹو صاحب نے راجگی نظام ختم کر دیا، یوں عوام مالیہ اور لگان سے آزاد ہوئے۔ اجلال حیدر زیدی ریزیڈنٹ شمالی علاقہ جات تھے۔ انہوں نے بھٹو صاحب کی توجہ خطے میں فوڈ سکیورٹی کی طرف بھی دلائی جس پر گندم، نمک اور چینی سبڈی کے تحت با رعایت قیمت پر دینے کے احکامات جاری ہوئے۔‘
یہ حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان ایک زرعی علاقہ نہیں، اس پر مستزاد گذشتہ کئی سالوں سے ماحولیاتی تبدیلی کے برے اثرات نے سر اٹھانا شروع کیا ہے جس کا یہ خطہ نشانہ بن رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے زراعت اور پینے کے لیے پانی کی کمی دیکھی گئی ہے ۔ دوسری طرف آبادی کے دباؤ اور اربنائزیشن کی وجہ سے گلگت بلتستان کی محدود زرعی زمین بھی تیزی سے ہوٹلوں، مکانات اور دکانات میں تبدیل ہو رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومت کی جانب سے محکمہ پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے تحت کروائے گئے سروے رپورٹ MICS-2017 کے مطابق گلگت بلتستان کے اکثر علاقوں کی صحت عامہ بہتر نہیں ہے اور اس کی بنیادی وجہ فوڈ سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔
گلگت بلتستان کی فی کس آمدنی نہایت قلیل اور ضروریات زندگی کے لیے ناکافی ہے۔ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ محکمے کی کثیرالابعاد غربت ٹیبل کے مطابق گلگت بلتستان 0.179 پر ہے۔
ادھر نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے تحت بھی گلگت بلتستان دوسرے صوبوں کے مقابلے میں سٹنٹنگ اور گھریلو فوڈ اِن سکیورٹی میں پہلے نمبر پر ہے اور بنیادی وجہ غذائیت کی کمی اور غذائی اجناس کی کمیابی ہے۔
ایسے میں گندم کی قیمت میں یکدم اضافہ لوگوں کی قوت خرید سے باہر کا معاملہ بن رہا ہے اور غذائیت میں مزید کمی کا خطرہ ہے۔
گلگت بلتستان کے حکومتی اعدادوشمار کے مطابق وفاق سالانہ کی بنیاد پر نو ارب روپے گندم سبسڈی کی مد میں دے دیتا ہے۔ 2023 کی کی گئی مردم شماری کے مطابق گلگت بلتستان کی آبادی 18 لاکھ ہے اس طرح ایک فرد کے لیے پانچ ہزار روپے سالانہ سبسڈی بنتی ہے جو اتنی بڑی رقم نہیں ہے۔
گلگت بلتستان میں معدنیات، ہائیڈرو انرجی اور ٹوارزم کے بے پناہ مواقع ہیں، جن میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر کے نہ صرف علاقے کی معاشی ترقی اور سماجی زندگی میں بڑی بہتری لائی جا سکتی ہے بلکہ ملکی سطح کی معیشت کو بھی استحکام مل سکتا ہے۔
ان مواقعوں سے بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لیے قومی سطح پر عزم صمیم اور بلند سوچ کے ساتھ طویل مدتی پلاننگ کے ذریعے بروقت کام شروع کرنے کی ضرورت ہے، جس کا ابھی تک فقدان ہے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔