گذشتہ ہفتے شیخ عبدہ علی ادریس کی وفات کے بعد صدیوں سے جاری اغوات حرم کی روایت اپنے اختتام کے قریب ہوتی دکھائی دے رہی ہیں۔
شیخ عبدہ علی ادریس کا تعلق خدامِ حرمین کی اس لڑی سے تھا جو گذشتہ 800 سالوں سے مسجد الحرام اور مسجد نبوی میں صفائی، رکھوالی، انتظام اور نگرانی کے مختلف فرائض سرانجام دیتے آ رہے ہیں۔
ان کی اکثریت خواجہ سرا ہوتی تھی جبکہ ان کا تعلق افریقہ سے ہوتا تھا۔
اغوات کی تاریخ
آغا ترکی زبان میں رہنما یا بڑے بھائی کو کہتے ہیں اورحرمین میں یہ لفظ خدامِ حرم کی ایک مخصوص جماعت کے افراد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ام القریٰ یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر سحر دعدع کے مطابق اغوات کو خدمت حرم پر مامور کرنے کی تاریخ ایک مشہور ترین روایت کے مطابق سن 575 ہجری میں سلطان نور الدین زنکی کے زمانے میں ہوئی، جس کی وجہ انتہائی دلچسپ تھی۔
ان کے بقول قصہ جس کا ابن کثیرؒ نے البدایہ والنہایہ میں بھی ذکر کیا ہے کچھ یوں ہے کہ نور الدین زنکی جب حاکم تھے تو ان کو ایک رات نبی کریمﷺ کی زیارت ہوئی اور ان کو دو اشخاص کے چہرے دکھائے گئے جو مدینہ میں روضہ مبارک کو نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔
’زنکی یہ خواب دیکھ کر فورا مدینہ منورہ روانہ ہوئے اور ایک دعوت عام کا اہتمام کیا جہاں تمام اہل مدینہ کو بلایا گیا تاکہ ان دونوں چہروں کو پہچانا جاسکے جن کو خواب میں دیکھایا گیا تھا، تاہم دعوت میں تمام لوگوں سے ملاقات کے باجود زنکی کو وہ دو چہرے نہیں نظر آئے۔‘
نور الدین زنکی کے استفسار اور اصرار پر معلوم ہوا کہ اندلس سے آئے دو بزرگ مدینہ میں مقیم ہیں وہ اس دعوت میں نہیں آئے تو زنکی خود ان کے گھر گئے اور دیکھا تو یہ وہی دو اشخاص تھے جن کو انہوں نے خواب میں دیکھا تھا۔
روایت کے مطابق تحقیق سے معلوم ہوا کہ دونوں کا روضہ مبارک تک سرنگ کھودنے کا منصوبہ تھا اور ان کو نصرانیوں کی جانب سے بھیجا گیا تھا۔
’اس واقعے کے بعد سوچا گیا کہ روضہ رسولﷺ کی خدمت اور حفاظت کی ذمہ داری باقاعدہ طور پر ایک جماعت کو دی جائے، اور یہیں سے اغوات کو حرم میں خدمت کی تعینات کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور 1399 ہجری تک جاری رہا۔‘
اغوات کا حلیہ اور ذمہ داریاں
افریقہ سے تعلق رکھنے والے ان خدام حرم کو ان کے منفرد حلیy سے پہچانا جا سکتا ہے چنانچہ اغوات سفید ثوب (جبہ) کے اوپر مخصوص صدری (واسکٹ) اور سر پر پگڑی زیب تن کرتے تھے۔
روایت کے مطابق اس کے علاوہ اغوات رتبے اور تجربے کی بنیاد پر مختلف رنگوں کی شال بھی لیتے تھے اور ان کی عادات میں شامل تھا کہ وہ گھڑی، انگوٹھی یا کوئی اور زیور نہیں پہنتے تھے۔
پروفیسر سحر دعدع کے مطابق آغاز میں 12اغوات کو بھرتی کیا گیا تھا، تاہم بعد ازاں یہ تعداد بڑھتی گئی اور خلافت عثمانیہ کے دوران ایک وقت پر 120 تک بھی پہنچ گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اغوات کی ذمہ داریوں کے متعلق سحر دعدع کہتی ہیں کہ اغوات کی حرمین میں 40 مختلف ذمہ داریاں تھیں جن میں حجرہ نبویہ اور منبر کی رکھوالی کے ساتھ انتظام اور صفائی وغیرہ کی بھی ذمہ داریاں تھیں۔
سعودی فوٹوگرافر عادل القریشی نے مدینہ منورہ پر اپنی حالیہ تحقیق میں اغوات پر خصوصی توجہ دی ہے بلکہ اپنی کتاب کا عنوان ہی اغوات سے موسوم کیا ہے۔
انڈپینڈنٹ عربی سے بات کرتے ہوئے عادل القریشی کا کہنا تھا کہ اغوات میں سے جو افراد باقی ہیں وہ انتہائی ضعیف ہیں اور اب ان کی واحد ذمہ داری حجرہ نبویہ کی چابی کی رکھوالی ہے، جس کی عادل القریشی سالوں کی کوشش کے بعد تصاویر حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
’ان رسمی ذمہ داریوں کے علاوہ اغوات آخری ایام میں شاہی خاندان کے استقبال کے فرائض بھی سرانجام دیتے تھے۔‘
روایت کا اختتام کیسے ہوا؟
سعودی عرب کے قیام کے بعد شاہ عبدالعزیز نے اغوات سے متعلق ایک فرمان جاری کیا جس میں ان کو اپنے عہدوں اور ذمہ داریوں پر برقرار رکھا گیا، بعد ازاں شاہ فیصل کے دور میں اغوات کے انتظام کا تفصیلی طریقہ کار مرتب کیا گیا۔
ان کے مطابق اغوات اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے رہے اور ان کے ہر سعودی فرمانرواں سے اچھے تعلقات اور قربت رہی۔ سن 1399 ہجری میں سعودی عرب میں آخری آغا آئے اور اس کے بعد سرکاری طور پر یہ سلسلہ ختم کردیا گیا۔
کہا جاتا ہے یہ اس لیے ہوا کیونکہ افریقی ممالک میں والدین جان بوجھ کر اپنے بچوں کو خواجہ سرا بنا رہے تھے تاکہ ان کو حرم کی خدمت کے لیے پیش کیا جاسکے۔
اس شرعی قباحت پر سعودی حکومت نے علما کے مشورے پر اغوات کو بلانے کا سلسلہ ختم کر دیا تاہم جو اغوات پہلے سے خدمات سرانجام دے رہے تھے ان کی عزت واحترام اور رسمی عہدے باقی رہے۔
مدینہ منورہ میں شیخ عبدہ ادریس کی وفات کے بعد اب صرف دو اغوات زندہ ہیں جن میں سے ایک کی عمر 100 سال سے زائد ہے جبکہ دوسرے کی 80 برس کے قریب ہے۔
اسی طرح مکہ مکرمہ میں بھی اغوات کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔