پاکستان میں عام انتخابات کی تاریخ جیسے جیسے قریب آ رہی ہے، سیاسی جماعتوں میں ہلچل بڑھتی جا رہی ہے، تاہم ہر بار انتخابات کے موقعے پر ہر سیاسی جماعت کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے میں مشکلات ہوتی ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حالیہ انتخابات میں مسلم لیگ ن ’فیورٹ‘ سمجھی جا رہی ہے، لہذا ٹکٹوں کی تقسیم میں اس جماعت کو چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ کا پانچواں اجلاس جمعے کو محمد نواز شریف اور شہباز شریف کی صدارت میں لاہور میں منعقد ہوا تھا، جس کے دوران ڈیرہ غازی خان ڈویژن سے موزوں امیدواروں کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پارلیمانی بورڈ دو دسمبر سے اب تک سرگودھا ڈویژن، ڈسٹرکٹ راولپنڈی، ہزارہ، مالاکنڈ ڈویژن اور صوبہ بلوچستان میں پارٹی امیدواروں کے ناموں پر غور کرچکا ہے۔
یہ اجلاس آئندہ بھی جاری رہیں گے اور ابھی تک بورڈ اپنے طور پر امیدوار فائنل کر رہا ہے تاہم حتمی امیدواروں کا اعلان بعد میں ہوگا، جنہیں پارٹی ٹکٹ جاری کیے جائیں گے۔
More than just elections, PML-N is choosing a future for Pakistan. pic.twitter.com/Ync8MVKf5D
— PMLN (@pmln_org) December 8, 2023
اس دوران مسلم لیگ ن کو پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اپنے بچوں یا رشتہ داروں کو ٹکٹ دلوانے کے سلسلے میں کئی حلقوں میں ایک سے زیادہ امیدوار میدان میں ہونے کے چیلنج کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
مسلم لیگ ن کے پارلیمانی بورڈ میں شامل احسن اقبال، حنیف عباسی اور دانیال عزیز سمیت کئی رہنما اپنے بیٹوں یا رشتہ داروں کو ٹکٹ جاری کرنے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں۔
بچوں کو ٹکٹ جاری کرنے کے معاملے پر احسن اقبال اور دانیال عزیز کے درمیان بیان بازی بھی جاری ہے، جس پر پارٹی کی جانب سے دانیال عزیز کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا جا چکا ہے۔
پنجاب میں بیشتر قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں کئی مضبوط امیدوار بھی ٹکٹ کے لیے مد مقابل ہیں۔
ٹکٹوں کی تقسیم مسلم لیگ ن کے لیے کتنا بڑا چیلنج ہے؟
یہ سوال جب مسلم لیگ ن پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری سے کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’ہماری جماعت ہر الیکشن میں ایسے تجربے سے گزرنے کی عادی ہے۔‘
عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پارٹی کے پاس ہر حلقے میں کئی مضبوط امیدوار ہیں اور کئی پارٹی رہنما بھی اپنے بچوں یا رشتہ داروں کو ٹکٹ دلوانا چاہتے ہیں، مگر پارلیمانی بورڈ میں شامل سینیئر رہنما پارٹی پالیسی کے مطابق بہترین امیدوار میدان میں اتاریں گے۔‘
انہوں نے مزید بتایا: ’دوسری بات رہنماؤں کے اپنے بیٹوں یا بیٹیوں کو ٹکٹ دلوانے کا سوال ہے تو اگر پارٹی کو لگتا ہے کہ کسی رہنما کا بیٹا یا بیٹی سیٹ جیت سکتا ہے تو انہیں ٹکٹ دینے میں کوئی حرج نہیں۔ جنہوں نے اپنے بچوں کی درخواستیں جمع کروائی ہیں، اس پر پارٹی فیصلہ کرے گی۔‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا: ’بڑی پارٹیوں میں ہمیشہ یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ایک نشست پر 12 سے 13 امیدوار ٹکٹ کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اس طرح کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ موجود ہے۔ ان مسائل کے حل کے لیے اضلاع کی سطح پر کیمیٹیاں بنا دی گئی ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں۔‘
لیگی رہنما کے مطابق: ’یہ سٹیٹس کو کی بات نہیں، سیاست دان کا بیٹا یا بیٹی سیاست دان ہوسکتے ہیں، اس پر کوئی پابندی تو نہیں۔ اس طرح کے مسائل جب بھی سامنے آتے ہیں ہم انہیں خوش اسلوبی سے حل کر لیتے ہیں، لہذا اب بھی جو مسائل ہوں گے، حل کر لیے جائیں گے۔ اس میں ہمارے لیے کوئی پریشانی کی بات نہیں۔‘
سیاسی تجزیہ کار اور سابق نگران وزیراعلیٰ پنجاب حسن عسکری کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم اس مرتبہ مشکل مرحلہ دکھائی دے رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’جس طرح گذشتہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی ٹکٹوں کے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ تھی، اس بار مسلم لیگ ن فیورٹ سمجھی جا رہی ہے، اسی لیے پارٹی رہنماؤں اور عہدے داروں کی ناراضگی سے بچتے ہوئے ٹکٹ تقسیم کرنا کافی مشکل امتحان دکھائی دے رہا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کئی حلقوں میں امیدوار ایک سے زیادہ ہیں اور کہیں پارٹی رہنما اپنے بچوں یا رشتہ داروں کو ٹکٹ دلوانے کے خواہش مند ہیں، یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی بورڈ کے لیے لوگوں کو راضی کرنا امتحان بنا ہوا ہے۔‘
بقول حسن عسکری: ’ہمارے ملک میں ایک مخصوص کلاس ہے جو مختلف جماعتوں سے الیکشن میں امیدوار ہوتی ہے۔ وہی چہرے ایک بار ایک جماعت، اگلی بار دوسری جماعت کی طرف سے امیدوار دکھائی دیتے ہیں۔ پھر کئی مخصوص خاندان ہیں جن کی پارٹیوں میں اجارہ داری ہے، پھر ان کے بچے یا رشتہ دار میدان میں ہوتے ہیں۔ شروع سے اب تک وہی نظام چل رہا ہے۔ موروثیت کو بھی معیوب سمجھنے کی بجائے حق سمجھا جاتا ہے۔
’لہذا پارٹی رہنماؤں کی جانب سے اپنے بچوں کو امیدوار بنوانا یا ٹکٹ کی جدوجہد پرانی روایت ہے۔ ہر سیاسی جماعت اس کا توڑ بھی جانتی ہے۔ ن لیگ کو سب سے زیادہ تجربہ ہے وہ کہیں اور ایڈجسٹ کر کے تنازعات ختم کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔‘
ٹکٹوں کی تقسیم کے تنازعات کس طرح حل کیے جاتے ہیں؟
سیاسی معاملات پر عبور رکھنے والے تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپرنسی (پلڈاٹ) کے صدر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ انتخابات کے موقعے پر ان تمام بڑی جماعتوں میں، جن کے اقتدار میں آنے کا امکان زیادہ ہو، اس طرح کے چیلنجز کا سامنا رہتا ہی ہے، تاہم یہ جماعتیں اپنے رہنماؤں اور عہدے دار، جو ٹکٹوں کے خواہش مند ہوں اور انہیں ٹکٹ نہ دیا جاسکتا ہو، انہیں حکومت ملنے کے بعد سرکاری سیاسی عہدوں یا سینیٹ میں ٹکٹ دینے کا وعدہ کر کے ساتھ رکھتی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے بتایا: ’سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کے موقعے پر تنازعات ہونا ایک عام رجحان ہے خاص طور پر بڑی جماعتوں میں جن کے اقتدار میں آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ تمام بڑی سیاسی جماعتیں متبادل عہدوں جیسے سینیٹر شپ، سپیشل اسسٹنٹ، ایڈوائزر کی تقرری، یا کئی دیگر ایگزیکٹو عہدوں جیسے چیئرمین ریڈ کراس، چیئرمین کرکٹ بورڈ وغیرہ کا وعدہ کرکے اس کو سنبھالتی ہیں۔‘
احمد بلال کے مطابق: ’ناراض ہونے کے باوجود لوگ پارٹی کے ساتھ رہتے ہیں۔ اگر منتخب امیدوار مقامی پارٹی کارکنوں اور عہدے داروں میں بہت غیر مقبول ہے، تو وہ عام طور پر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیتے جیسا کہ ضمنی انتخابات کے دوران ہوا تھا جب مسلم لیگ ن نے پنجاب میں پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کو ٹکٹ دیا تھا۔ اس لیے پارٹیوں کو احتیاط سے چلنا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو کامیابی کے لیے مقامی پارٹی کارکنوں کے ساتھ عوامی مرضی کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔‘
حسن عسکری بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’جس طرح ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر پارٹیوں میں خاندانوں کا قبضہ ہے اسی طرح بیشتر حلقوں میں بھی موروثیت پائی جاتی ہے۔ ایک ہی خاندان کے لوگ شروع سے ہی پارٹیاں بدل کر پارلیمان میں پہنچ جاتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’جب پارٹیوں کی جانب سے ٹکٹ جاری ہوتے ہیں تو امیدواروں میں مقابلہ فطری ہوتا ہے۔ لیکن یہ جماعتیں لوگوں کو ساتھ رکھنے کے لیے مختلف عہدے یا سرکاری اختیارات سے نواز دیتی ہیں۔ جس پارٹی کے اقتدار میں آنے کی امید ہو اس سے تعلق رکھنے والے بھی زیادہ ناراض نہیں ہوتے کیونکہ ٹکٹ کا متبادل ملنے کا یقین ہوتا ہے۔‘