پاکستان سٹاک ایکسچینج میں نومبر کے آخری کاروباری دن جمعرات کو ملے جلے رجحان کے ساتھ 100 انڈیکس 29 پوائنٹس اضافے سے 60 ہزار 531 پر بند ہوا ہے۔ کاروباری دن میں انڈیکس تاریخ کی بلند ترین سطح 60 ہزار 981 پوائنٹس پر گئی البتہ بعد اس میں قدرے کمی آ گئی۔
پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 29 نومبر کو بھی تیزی دیکھی گئی اور 100 انڈیکس نے 61 ہزار کی سطح عبور کر کے تاریخ رقم کی۔ اس دن 100 انڈیکس 61 ہزار 555 کی تاریخی سطح پر پہنچا۔ مگر بعد میں منفی رجحان میں تبدیل ہوکر 263 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 60 ہزار 466 پر آ گیا تھا۔
گذشتہ چند روز سے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور 100 انڈیکس ملکی تاریخ میں پہلی بار 61 ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کر گیا۔ 100 انڈیکس تین اکتوبر کو 46 ہزار پوائنٹس، 13 اکتوبر کو 50 ہزار پوائنٹس 29 نوبر کو 61 ہزار کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں 100 انڈیکس میں دو مہینوں کی قلیل مدت میں 15 ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔
اس مسلسل تیزی کے رجحان کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے کہا کہ حکومت پاکستان اور ریاست نے حالیہ پالیسی کے تحت ملک میں سمگلنگ اور ذخیرہ اندوزی اور دیگر منفی کاموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو اس کے اثرات نہ صرف پاکستان سٹاک مارکیٹ بلکہ مختلف شعبہ جات پر بھی مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ظفر پراچہ نے کہا: ’دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹ میں بہت زیادہ کمی کا بہت تیزی بڑے واقعات کے جیسے کہ جنگ چھڑنا یا تیل کی قیمت میں بڑا اضافہ یا بڑی کمی کے باعث ہوتی ہے۔ مگر پاکستان سٹاک ایکسچینج میں افواہوں اور ہیراپھیری کے باعث کمی یا تیزی آتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’پاکستان سٹاک ایکسچینج ایک دن بہت اوپر چلی جاتی ہے اور دوسری دن بالکل نیچے آجاتی ہے۔ مگر حکومت کی جانب سے افواہوں اور ہیرا پھیری پر قابو پانے کے بعد مارکیٹ میں مسلسل تیزی ہے اور یہ تیزی آئندہ دنوں میں بھی جاری رہے گی۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق حکومت کی جانب سے ڈالر کی سمگلنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کے باعث ڈالر کی بلیک مارکیٹ تقریباً بند ہو گئی ہے۔ ذخیرہ اندوزی کے خلاف کریک ڈاؤن سے نہ صرف چینی، گندم اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے کے ساتھ یہ اشیا اب وافر مقدار میں مارکیٹ میں موجود ہیں۔
بقول ظفر پراچہ: ’بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے رقم ملنے اور مختلف ممالک کی جانب سے پاکستان سرمایہ کاری کے اعلانات سے مقامی سرمایہ کار کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ مارکیٹ میں بہتری کا یہ سبب بھی ہے۔
’دنیا بھر میں سٹاک مارکیٹ کا حجم اس ملک کی مجموعی قومی پیداوار یا جی ڈی پی کا 18 سے 20 فیصد ہوتا ہے اور پاکستان سٹاک ایکسچینج کا حجم ملکی جی ڈی پی کا صرف اعشاریہ صفر دو فیصد ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اعتماد نہیں ہے۔ مارکیٹ میں اب بھی بہت گنجائش موجود ہے اور اگر اعتماد بحال ہوا تو مارکیٹ میں مزید بہتی آئے گی۔‘
اے کے وائی سکیورٹیز کے مالک اور سابق ڈائریکٹر پاکستان سٹاک ایکسچینج امین یوسف کے مطابق حالیہ دنوں حکومت کی جانب سے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، قطر سمیت مختلف ممالک سے 75 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے کے بعد مقامی سرمایہ کاروں میں امید ہوئی اور اس کا مارکیٹ پر مثبت اثر ہوا ہے۔
امین یوسف کے مطابق: ’ملک میں پیسہ بیرون سرمایہ کاری سے آئے گا کیوں کہ جو پیسے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ٹیکس کی مد میں جمع کرتا ہے وہ قرضوں کی ادائیگی میں چلا جاتا ہے۔ اب کچھ اعتماد بحال ہونا شروع ہوا ہے۔ جس کے مثبت اثرات سٹاک مارکیٹ میں آ رہے ہیں۔‘
کراچی میں مالیاتی امور کے ماہر اور تجزیہ نگار تنویر ملک کے مطابق نومبر کے پہلے ہفتے ہیں آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول ایگریمنٹ کے بعد 70 کروڑ ڈالر کی قسط کی یقین دہانی کے باعث مارکیٹ پر مثبت اثرات دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے تنویر ملک نے کہا: ’اس وقت ٹریڈ خسارے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بھی کمی دیکھی گئی اور ملکی خزانے میں بھی کچھ بہتری آئی ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ سہ ماہی میں کارپوریٹ سیکٹر کی کمائی میں بھی بہتری آئی تھی۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ کی بہتری میں یہ تمام اسباب ہیں۔‘