ڈیرہ اسماعیل خان میں سکیورٹی فورسز کے حملے پر پاکستان کے سیکریٹری خارجہ نے منگل کو افغان عبوری حکومت کے پاکستان میں ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر ’شدید احتجاج‘ ریکارڈ کرایا ہے۔
دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق حملے کی ذمہ داری ’تحریک طالبان پاکستان سے وابستہ ایک دہشت گرد گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کی ہے۔‘
- ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہا کہ افغان ناظم الامور کو کہا گیا کہ افغان عبوری حکومت کو فوری طور پر پاکستان کے مطالبات پہنچائے جائیں۔ بیان کے مطابق پاکستان نے افغان عبوری حکومت سے مندرجہ ذیل مطالبات کیے ہیں:
- افغان عبوری حکومت حالیہ حملے کے مرتکب افراد کے خلاف مکمل تحقیقات اور سخت کارروائی کرے
- افغان عبوری حکومت اعلیٰ حکومتی سطح پر اس حملے کی مذمت کرے
- تمام دہشت گرد گروہوں اور ان کی پناہ گاہوں کے خلاف فوری طور پر قابل تصدیق کارروائیاں کرے
- حملے کے مرتکب افراد اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کی قیادت کو پکڑ کر حکومت پاکستان کے حوالے کیا جائے
- پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کے مسلسل استعمال کو روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جائیں
اس سے قبل پاکستانی فوج نے حملے کے حوالے سے کہا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو سکیورٹی فورسز کی چیک پوسٹ پر حملے میں 23 فوجی جان سے چلے گئے۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ایک بیان میں کہا کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں منگل کو مختلف کارروائیوں میں کل 27 ’دہشت گرد‘ مارے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ 11 اور 12 دسمبر کی درمیانی شب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیاں دیکھیں گئیں، جن میں سے ایک حملہ 12 دسمبر کی صبح چھ ’دہشت گردوں‘ نے درابن میں سکیورٹی فورسز کی چوکی پر کیا۔
آئی ایس پی آر کے مطابق شدت پسندوں کے چوکی میں داخل ہونے کی کوشش کو ناکام بنا دیا گیا، جس کے بعد حملہ آوروں نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے خود کش حملہ کیا، جس سے عمارت زمین بوس ہو گئی اور 23 فوجیوں کی جان گئی جب کہ متعدد زخمی بھی ہوئے۔
فوج کے بیان میں کہا گیا کہ اس حملے میں شامل تمام چھ ’دہشت گردوں‘ کو مار دیا گیا۔ اس حملے کے بعد علاقے میں شدت پسندوں کی ممکنہ موجودگی کے پیش نظر ’سینی ٹائزیشن‘ یعنی عسکریت پسندوں کا صفایا کرنے کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔
فوج کی طرف سے کہا گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان ہی کے علاقے درازندہ میں ’دہشت گردوں‘ کی موجودگی کی اطلاع پر انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن (آئی بی او) کیا گیا، جس میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے کو تباہ کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ اس کارروائی میں 17 شدت پسند مارے گئے۔ انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ایک اور کارروائی کلاچی کے علاقے میں کی گئی جس میں آئی ایس پی آر کے مطابق شدت پسندوں کے ٹھکانے کو موثر انداز میں نشانہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں چار شدت پسند مارے گئے۔
اس کارروائی کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد دو سکیورٹی اہلکار بھی جان سے گئے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’دہشت گرد سکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کے قتل میں بھی سرگرم تھے جب کہ کارروائیوں کے دوران اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکہ خیز مواد بھی برآمد کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان (ٹی ٹی پی) سے جڑے ایک گروپ تحریک جہاد پاکستان نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے درابن میں ’دہشت گرد حملے‘ کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسی بزدلانہ کارروائیوں سے سکیورٹی فورسز کے حوصلے پست نہیں کیے جا سکتے۔‘
وزیراعظم کے دفتر سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ ’پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والے شہدا کو سلام پیش کرتی ہے۔‘
وزیر داخلہ سرفرازاحمد بگٹی نے ایک بیان میں کہا کہ ’دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پوری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور پاک سرزمین سے ناپاک دہشت گردوں کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔‘