اسلام آباد ہائی کورٹ نے منگل کو سابق وزیراعظم نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں اپیل منظور کرتے ہوئے انہیں بری کر دیا ہے۔
اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو گذشتہ سال دسمبر میں العزیزیہ کرپشن ریفرنس میں سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
اکتوبر کے آخر میں نواز شریف کی واپسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطل کرتے ہوئے انہیں آٹھ ہفتوں کے لیے ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر جاوید لطیف نے عدالتی فیصلے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’بہت دیر ہوئی انصاف ملتے مگر جہاں خوشی ہے وہاں ایک دکھ ہے۔۔۔ان فیصلوں نے پاکستان کو ڈبو دیا۔۔۔اس کی تلافی کیسے ممکن ہو گی؟‘
پاکستان تحریک انصاف نے منگل کو جاری بیان میں نواز شریف کی بریت کو ’انصاف کے تابوت میں آخری کیل‘ قرار دیتے ہوئے کہا چیئرمین نیب کو تنقید کو نشانہ بنایا۔
العزیزیہ سٹیل ریفرنس میں سزا
احتساب عدالت نے 24 دسمبر 2018 کو العزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید اور 2.5 ملین پاونڈ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں سات سال قید کے ساتھ 10 سال کے لیے کسی بھی عوامی عہدے پر فائز ہونے پر پابندی عائد کرنے اور نواز شریف کے نام تمام جائیداد ضبط کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نواز شریف نے احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل جمع کرائی تھی جس میں سات سال قید اور جرمانے کی سزا کا فیصلہ کاالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ جبکہ نیب نے اپیل میں موقف اختیار کیا تھا کہ احتساب عدالت نے کم سزا سنائی ہے سزا میں اضافہ کیا جائے۔
العزیزیہ سٹیل مل ریفرنس کیا ہے؟
2001 میں سعودی عرب میں جلاوطنی کے دوران العزیزیہ سٹیل ملز نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز نے قائم کی تھی۔
نیب نے اپنے ریفرنس میں الزام عائد کیا تھا کہ ’اسٹیل ملز کے قیام اور ہل میٹل کمپنی کے اصل مالک نواز شریف تھے جب کہ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ نواز شریف نے ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کمپنی سے بطور گفٹ 97 فیصد فوائد حاصل کیے تھے۔‘
جبکہ نیب نے اس کیس میں دستاویزی ثبوت پیش نہیں کیے تھے بلکہ جے آئی ٹی رپورٹ کا ہی حوالہ دیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ پیپرز کیس میں نااہل قرار دے کر نیب کو ایون فیلڈ ، العزیزیہ سٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔
آج کی عدالتی کارووائی
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق اور جسٹس میاں حسن گل اورنگزیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کا منگل کو آغاز کیا تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکیل امجد پرویز روسٹرم پر آئے اور عدالت سے نواز شریف کے بچوں کے ان کے زیر کفالت ہونے سے متعلق معاملے پر بات کرنے کی اجازت مانگی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ ’کیا ان کے دلائل ختم ہو چکے ہیں؟ نیب نے نواز شریف کے زیر کفالت سے متعلق کچھ ثابت کیا ہے؟‘ وکیل امجد پرویز نے کہا استغاثہ کے ’سٹار گواہ‘ واجد ضیا نے اعتراف کیا تھا کہ زیر کفالت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس استفسار کیا نیب نے کوئی ثبوت دیا کہ اپیل کنندہ کے زیر کفالت کون تھے؟ وکیل امجد پرویز نے کہا ’ہم نے ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے۔ نیب کے مرکزی گواہ نے مانا کہ وہ کوئی ایک ثبوت بھی اکٹھا نہیں کر سکے۔‘
اس دوران امجد پرویز نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے مختلف حصے پڑھے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر کہا گیا کہ بار ثبوت نواز شریف پر منتقل ہو گیا ہے؟ امجد پرویز نے کہا کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ میں حسین نواز کی دائر کردہ متفرق درخواستوں پر انحصار کیا گیا ہے، اگر انہیں تسلیم کر لیا جائے تو پھر بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف سٹیل مل کے کبھی مالک رہے ہوں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور پر اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا ’ہم نے ارشد ملک سے متعلق درخواست پر گزشتہ سماعت پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا۔‘ انہوں نے امجد پرویز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا ’آپ نے کہا تھا کہ آپ اس درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتے۔
’وکیل کی بات درست ہے کہ سپریم کورٹ کے ارشد ملک کیس کے فیصلے میں آبزرویشنز کافی مضبوط ہیں۔ وہ درخواست اگر نہ بھی ہوتی، تب بھی اگر وہ فیصلہ ہمارے سامنے آ جاتا تو ہم اس کو ملحوظ خاطر رکھتے۔‘
اس دوران عدالت نے العزیزیہ ریفرنس دوبارہ احتساب عدالت کو بھیجنے کی نیب کی استدعا مسترد کر دی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے گواہ واجد ضیا خود مان رہے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں، دستاویز کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف کا العزیزیہ اور ہل میٹل کے ساتھ کوئی تعلق ہے۔
بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیر اعظم کو العزیزیہ ریفرنس میں بری کر دیا۔