گذشتہ سال روس میں اس تقریب کا اہتمام نہیں ہو سکا تھا یعنی سال کے اختتام پر صدر ولادی میر پوتن کی سالانہ پریس کانفرنس منسوخ ہو گئی تھی جس میں جمع ہونے والے حاضرین اور دوسرے لوگ ملے جلے بیانات دیتے اور سوالات پوچھتے ہیں۔
یہ کانفرنس کئی گھنٹے جاری رہتی ہے۔ اکثر تین یا چار گھنٹے۔ اس کی طوالت کا انحصار روسی رہنما کی فیاضی پر ہوتا ہے۔
گذشتہ سال یہ پریس کانفرنس ملتوی ہونے کے بعد پوتن کے 2022 میں یوکرین پر حملے کے حکم کے بعد سے یہ پہلی بڑی کانفرنس تھی۔
یوکرین پر روسی حملہ ایسی فوجی مہم تھی جس کے بارے میں بظاہر کریملن کا خیال تھا کہ وہ چند ہفتے میں مکمل ہو جائے گی لیکن اب وہ تیسرے سال میں داخل ہونے کے قریب ہے۔
ماسکو اس جنگ میں اربوں پاؤنڈ جھونک چکا ہے جب کہ ہزاروں لوگ جان گنوا چکے ہیں اور اب محاذ پر تعطل کی حالت ہے۔
یوکرین کی طرف سے بھرپور دفاع جس میں اسے مغربی ملکوں کی معاونت حاصل ہے، نے پوتن کے منصوبے کھٹائی میں ڈال دیے ہیں۔
پوتن کی بات چیت بڑی حد تک سابق امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کے خطاب سے ملتی ہے لیکن پوتن کے معاملے میں ہر بات کی محتاط انداز میں منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور سرکاری ٹیلی ویژن اسے نشر کرتا ہے۔
صدر پوتن نے چار گھنٹے سے زیادہ وقت تک سوالات سنے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب بات تفصیل میں جاتی ہے۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے نکات ہیں جنہیں پوتن پہلے سے تیار جوابات میں نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ان باتوں سے معاملہ بگڑ جاتا ہے۔
سوالات جو ممکنہ طور پر حاضرین کی طرف سے پوچھے گئے (لیکن اس بات کی ضمانت نہیں) ان کے پیچھے موجود سکرینوں پر نمودار ہوئے۔
پوتن جنہوں نے حال ہی میں 2024 میں دوبارہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے ارادے کا اعلان کیا تو ایک شخص نے کہا کہ ’نوجوانوں کے لیے راستہ بنائیں۔‘
ایک شخص اور نے کہا: ’یہ سوال دکھایا نہیں جائے گا! میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ہمارے صدر اپنے ملک پر کب توجہ دیں گے؟ ہمارے پاس تعلیم نہیں ہے۔ صحت کی سہولتیں نہیں ہیں۔ آگے کھائی موجود ہے۔‘
تیسرے شخص کا کہنا تھا کہ ’حقیقی روس ٹیلی ویژن پر نظر آنے والے روس جیسا کب بنے گا؟‘
یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ آیا ایسا غلطی سے ہوا یا منصوبہ کے تحت یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ اختلاف رائے کو قبول کیا جاتا ہے۔
اگرچہ سیاسی مخالفین اور اس طرح کے ٹاک شوز پر دیگر لوگوں کو جیل میں ڈال دیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوتن کی برداشت کتنی کم ہے۔ وہ یقینی طور پر اس طرح کے سوالات کا جواب دینے کی کوشش نہیں کر رہے تھے۔
کچھ بھی ہو اس میں کوئی شک نہیں کہ پوتن کے جوابات ’سوال گندم جواب چنا‘ کے مصداق تھے۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ محض اسی موسم گرما میں روسی صدر کو غیر معمولی بغاوت کی کوشش کا سامنا کرنا پڑا۔
ایوگنی پریگوزن اور ان کی نجی فوج ویگنر نے ماسکو کی طرف مارچ کیا۔ ان کا احتجاج تھا کہ یوکرین پر حملے سے کس طرح نمٹا جا رہا ہے۔
یوکرین پوتن کے اقتدار کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے جس کا وہ اپنے دو دہائیوں سے زیادہ عرصے پر مشتمل دور اقتدار میں سامنا کرتے آ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ انہیں اس طرح کی سخت تنقید کی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
اگرچہ 2024 کے صدارتی انتخاب کے نتائج پر کوئی شک نہیں ہے لیکن اقتدار پر پوتن کی آہنی گرفت کو دیکھتے ہوئے کریملن اس الیکشن کی شاندار ساکھ پیش کرنے کا خواہاں ہے، یعنی تھوڑی سی عوامی تنقید جس سے گھر پر ٹیلی ویژن دیکھنے والے لوگوں کو یہ تاثر ملے کہ روس میں جمہوریت زندہ اور اچھی طرح سے موجود ہے۔
ایک اور تحریری سوال میں کہا گیا کہ ’آپ کی ’حقیقت‘ ہماری زندہ حقیقت سے متصادم کیوں ہے؟ ساری بات ساکھ کی تھی۔
یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب پوتن کو مغربی ملکوں کے صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ بات واضح ہے کہ کریملن روسی شہریوں کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ پوتن بین الاقوامی بازپرس سے خوفزدہ نہیں ہیں گو کہ انہوں نے مغرب کے خلاف وہی پرانی باتیں کیں جو روس کی موجودہ خرابیوں کی بنیادی وجہ ہیں۔
انہوں نے گھٹیا انداز میں طنز کیا کہ یوکرین کے لیے مغربی فنڈنگ کیسے جلد ہی ختم ہو جائے گی کیوں یورپی یونین اور امریکہ دونوں کیئف کے لیے نئی مالی امداد کی اجازت کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کے ساتھ اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک ’ہم اپنے مقاصد حاصل نہیں کر لیتے۔‘ یہ ایسا ابہام ہے جس میں پوتن کو کمال حاصل ہے۔
یوکرین میں جنگ کے معاملے بھی پوتن نے جنگ کے لیے ریزرو دستوں کو دوسری بار متحرک کرنے کی ضرورت کو مسترد کر دیا جو ان فوجیوں خاندانوں کے نزدیک انتہائی غیر مقبول اقدام ہوگا جو اپنے بیٹوں کو مرنے کے لیے نہیں بھیجنا چاہتے۔
لیکن ایسا کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت اگلے محاذ پر چھ لاکھ 17 ہزار روسی فوجی موجود ہیں۔
اس تعداد کو اگر روسی عہدے داروں کی طرف سے پیش کردہ سابقہ اعداد و شمار کے ساتھ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ماسکو کی تین لاکھ سے زیادہ فوج جان سے جا چکی ہے یا شدید زخمی ہوچکی ہے۔ یہ تعداد اگلا محاذ چھوڑنے کے لیے کافی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تعداد امریکی انٹیلی جنس کی حالیہ رپورٹ سے کسی نہ کسی حد تک مماثلت رکھتی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے اب تک تین لاکھ 15 ہزار روسی فوجی مارے گئے یا زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ تعداد ان فوجیوں کا تقریباً 90 فیصد ہے جنہوں نے حملے کا آغاز کیا۔ یہ خیال کہ پوتن کے ’قریبی‘ لوگوں کی بڑی تعداد جان سے جا چکی ہے واضح طور پر یہ اشارہ ہے کہ پوتن نے ملک کا نقصان محسوس کیا۔
گذشتہ سال نیوز کانفرنس کی منسوخی اس وقت ہوئی جب یوکرین کی افواج نے جنوب اور مشرق کے علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور پوتن نے کہا تھا کہ ان کی افواج پورے محاذ پر ’اپنی پوزیشن بہتر بنا رہی ہیں‘ لیکن یہ کامیابی ’معمولی‘ تھی۔
بنیادی طور پر کریملن نے تسلیم کیا کہ میدان جنگ کے بہت سے حصوں میں تعطل کی حالت پائی جاتی ہے۔
پوتن نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ یوکرین کے شہریوں نے دریائے نیپرو کے روس کے زیر قبضہ مشرقی کنارے کے ایک ’چھوٹے سے علاقے‘ پر قبضہ کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ روسی افواج ’ہمارے لڑکوں کو بچانے‘ کے لیے چند میٹر پیچھے ہٹ گئی ہیں۔ یہ واضح اعتراف ہے چاہے یہ اس آڑ میں کیا گیا ہو کہ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔
پوتن نے صورت حال کو خوشگوار رکھنے کی بھی کوشش کی۔ انہوں نے ایک شخص سے مذاق میں کہا کہ وہ جوان اور خوبصورت ہیں اس لیے انہیں خاندان کا آغاز کرنا چاہیے۔
ایک عجیب و غریب لمحہ بھی آیا جب ’سینٹ پیٹرزبرگ سٹیٹ یونیورسٹی کے ایک طالب علم‘ جو درحقیقت خود پوتن کا مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کردہ ورژن تھا، نے ہم شکل افراد کے استعمال کے بارے میں سوال کیا۔
پوتن کے بارے میں اس حوالے باقاعدگی سے قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں۔ پوتن کا کہنا تھا کہ ’ویسے یہ میرا پہلا ہم شکل ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’صرف ایک شخص‘ ان کی آواز میں بات کرتا ہے۔
جس طرح پوتن بہت سے کام کرتے ہیں کی اسی طرح ان کے بہت اقدامات کی نپے تلے انداز میں منصوبہ بندی کی گئی تاکہ روسی شہریوں پر ان کا زیادہ سے زیادہ اثر ہو۔
انہوں نے اس عمل کے ایک حصے کے طور پر مغرب پر سخت تنقید کی۔ اگرچہ ان میں بہت سے کام قدرے احمقانہ تھے لیکن احتیاط سے پیش کی گئی تصویر کے پیچھے دلچسپ پہلو بھی چھپے ہوئے تھے۔
© The Independent