کچھ عرصہ قبل پشاور میں حیات آباد کی سڑکوں پر ایک جواں سال عورت کو نشے میں دھت دیکھا گیا۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد چہ مگوئیاں ہونے لگیں۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ یہ کہاں سے آتی ہیں اور کہاں جاتی ہیں ۔ حیات آباد کے کچھ رہائشیوں نے اس پر ایکشن لیتے ہوئے مجسٹریٹ کو مطلع کیا اور ان خاتون کو کرائسز سینٹر منتقل کرنے کی گزارش کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ خاتون رات گئے تک علاقے میں آوارہ گھومتی ہیں اور چیختی چلاتی ہیں جس کی وجہ سے لوگ سخت پریشان ہیں۔
یہ خاتون پشتو ڈراموں کی ایک اداکارہ سپنا خان تھیں ۔ جو بری صحبت کا شکار ہو کر آئس کے نشے میں مبتلا ہو گئی تھیں۔ آہستہ آہستہ نشے کے اثرات نے انہیں نوکری سے محروم ہونے اور بھیک مانگنے پر مجبور کر دیا۔ اداکارہ سپنا کے نزدیکی چند لوگوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سپنا کی مجبوری کا ان کی فیلڈ کے لوگوں نے غلط فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ وہ خوبصورت تھیں لہذا لوگ ان کا جنسی استحصال کرنے لگے۔ بعد میں جب وہ سڑکوں پر آگئیں تب بھی لوگ انہیں اٹھا کر اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کے بعد دوبارہ سڑک پر چھوڑ دیتے تھے۔ ایک دن ان کے قریبی رشتہ داروں نے انہیں قتل کر دیا۔
سپنا کی درد ناک کہانی کے بعد بھی خیبر پختونخوا میں آئس نشے کے عادی افراد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ محکمہ سوشل ویلفئیر کے ڈائریکٹر غفور شاہ کے مطابق نشہ کرنے والوں کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے 2018 میں پشاور میں واقع منشیات بحالی سنٹر کے بیڈز کی تعداد 25 سے بڑھا کر 100 کر دی تھی۔ اس کے علاوہ پہلی مرتبہ اس سنٹر میں ڈی ٹاکس کو بھی متعارف کر دیا گیا۔
منشیات بحالی سنٹر پشاور کے منتظم جواد خان نے بتایا کہ فروری 2018 سے لیکر اب تک ان کے پاس آئس نشے کے عادی 493 افراد علاج کے غرض سے آ چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر نوجوان اور امیر طبقے کے لوگ شامل ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ کچھ سال پہلے جب یہ نشہ متعارف ہوا تو زیادہ تر طالب علموں نے امتحانات کے دنوں میں خود کو دیر تک جگائے رکھنے کے لیے یا بعض لوگوں نے اپنا غم غلط کرنے کے لیے اس کا استعمال شروع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نارکوٹکس محکمے کے ایک افسر نے بتایا کہ پشاور میں آئس کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔ اور ان کے پاس اب تک جتنے کیسز سامنے آئے ہیں ان میں زیادہ تر پشاور یونیورسٹی اور پروفیشنل کالجوں کے مرد و خواتین طالب علم شامل ہیں۔ خواتین کو اکثر یہ کہہ کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ یہ نشہ کرنے سے ان کی ذہنی کارکردگی بہتر ہونے کے ساتھ ان کا موٹاپا ختم ہوگا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پشاور میں یہ ڈرگ ایران سے آتی ہے لیکن اسے مقامی لوگ بھی تیار کرتے ہیں جو زیادہ نقصان دہ ہے۔
کرسٹل میتھ کے حوالے سے پشاور کے ایک نوجوان کاشف خان کا کہنا ہے کہ اس نشے کا رجحان 2008 میں ریلیز ہونے
والے مشہور امریکن ڈرامے ’بریکنگ بیڈ ‘ کی وجہ سے بڑھ گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پورا ڈرامہ آئس کے گرد گھومتا ہے۔ جس میں ایک کیمسٹری کا سکول ٹیچر اس نشے کے کاروبار سے ارب پتی بن جاتا ہے۔
آئس نامی نشے سے متعلق معلومات اکھٹی کرنے کے دوران معلوم ہوا کہ خواجہ سراؤں میں بھی اس کا استعمال بہت عام ہے۔ خواجہ سراؤں کی فلاح اور پروٹیکشن کی تنظیم ٹرانس ایکشن کی صدر فرزانہ ریاض (خواجہ سرا) کے نزدیکی حلقوں نے بتایا کہ خود فرزانہ بھی آئس کا استعمال کرتی ہیں۔ اس کی وجہ انھوں نے فرزانہ کی ڈھلتی عمر اور کچھ خاص ذریعہ معاش کا نہ ہونا بتایا ہے۔
خواجہ سراؤں کے بارے مشہور ہے کہ جب ان کی جوانی ڈھل جاتی ہے تو ان کا ’مڑخ ‘ (گرو) ان کو دھتکار دیتا ہے۔ عموما اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ عوام میں ان کی وہ پذیرائی باقی نہیں رہتی جو نوجوان خواجہ سراؤں کو ملتی ہے۔ لہذا گھر سے دھتکارے ہوئے یہ لوگ اپنی کمیونٹی سے بھی نکالے جانے کا غم سہہ نہیں پاتے اور اس طرح مختلف نشوں کا سہارا لینے لگتے ہیں۔
آئس نشے کی بابت جب انڈپینڈنٹ اردو نے فرزانہ سے دریافت کیا تو انہوں نےخود پر لگے الزام کی تردید کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے دو سال قبل ہی اس نشے کو خیرباد کہہ دیا تھا تاہم دیگر خواجہ سراؤں کو اس لعنت سے چھٹکارا دلانے کے لیے وہ ارباب اختیار کے دفاتر میں کب سے چکر کاٹ رہی ہیں تاکہ ان کے علاج کے لیے بھی بحالی سنٹروں میں جگہ مختص کی جائے۔ لیکن فرزانہ کے مطابق حکومت کی جانب سے تاحال ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔
آئس نشہ کیا ہے؟
دوسرے منشیات کے برعکس آئس ایک کیمیکل میتھ ایمفیٹامین سے بنتا ہے۔اس نشے کو کئی اور ناموں جیسے میتھ ، گلاس، اور کرسٹل میتھ سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہ پھٹکڑی کی شکل کا ایک پتھر ہوتا ہے جس کا پاؤڈر بنا کر، سگریٹ کے ذریعے، سونگھ کر یا انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کیا جاتا ہے۔ 1887 میں جرمنی میں پہلی مرتبہ ایک رومی کیمسٹ نے ایمفیٹامین کا مرکب تیار کیا تھا۔ بعد میں 1893 میں ایک جاپانی کیمسٹ نے ایفی ڈرین سے میتھ ایمفیٹامین تیار کیا۔ دوسری عالمی جنگ میں میتھ ’پروی ٹین‘ نام سے گولیوں کی شکل میں بیچی جا رہی تھی۔ نازی جرمنی کے سپاہی اور خاص طور پر پائلٹ زیادہ دیر تک بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے یہ گولیاں استعمال کرتے تھے۔ تاہم تاریخی حوالوں کے مطابق بعد میں ان میں سے زیادہ تر افسر اور سپاہی مختلف ذہنی مسائل کا شکار ہو کر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے۔
یہ ڈرگ بنانے کے لیے حکومت کی خصوصی اجازت لینی پڑتی ہے کیونکہ اسے اکثر درد سے نجات حاصل کرنے والی یا موٹاپا دور کرنے والی ادویات میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ البتہ اس مرکب کوغلط مقاصد کے لیے بنانے والے اس کو اکثر پوشیدہ جگہوں میں غیر قانونی طور پر بناتے ہیں۔
کرسٹل میتھ یا آئس کے کیا نقصانات ہوتے ہیں؟
آئس کو اس دور کا سب سے خطرناک نشہ مانا جاتا ہے۔ اس کا حملہ براہ راست مرکزی اعصابی نظام پر ہوتا ہے۔ یہ واحد نشہ ہے جو پہلی ہی بار کرنے سے انسان کو اپنا عادی بنا دیتی ہے۔ میتھ سے بھوک اور نیند اڑ جاتی ہے اور انسان مسلسل 12 گھنٹے یا اس سے زیادہ دیر تک چست اور توانا محسوس کرتا ہے۔ یہ نشہ کرنے سے وقتی طور پر انسا ن کو بے حد خوشی کا احساس رہتا ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ مہینوں کے اندر اندر انسان زوال کی طرف بڑھنے لگتا ہے۔
آئس کے مسلسل استعمال سے گھبراہٹ ،غصہ اور شک کی بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔ طبیعت میں اتار چڑھاؤ رہتا ہے اور فیصلے کی قوت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ ایسا شخص انتہائی خود اعتماد بن جاتا ہے اور اسی لیے کچھ بھی کر گزرنے سے دریغ نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ یہ نشہ پرتشدد طبیعت کو جنم دیتا ہے۔ اس نشے سے جنسی خواہش بھی ایک طویل عرصے تک بیدار رہتی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق جب انسان خوش ہوتا ہے تو دماغ چار قسم کے کیمیکل خارج کرتا ہے ، اینڈورفائن ، ڈوپامائن، سیروٹونن اور آکسی ٹوسن۔ میتھ کے استعمال سے دماغ کے اس نظام کو غیر فطری طریقے سے انتہائی حد تک متحرک کیا جاتا ہے۔ جس کے کچھ عرصے بعد یہ نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر انسان کی موت کا باعث بن جاتا ہے۔
آئس کے نشے میں ملوث افراد کے لیے عمر قید سزائیں اور جرمانہ:
27 اگست 2019 کو خیبر پختونخوا اسمبلی نے منشیات روک تھام بل پاس کر کے پہلی مرتبہ آئس کو غیر قانونی قرار دے دیا ۔ محکمہ ایکسائز ٹیکسیشن اور نارکوٹکس کے ڈائریکٹر جنرل فیاض علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اس بل کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ اس سے پہلے آئس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی۔ لہذا ایک مجرم پکڑے جانے کی صورت میں پولیس کو چیلنج کر سکتا تھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اب نہ صرف آئس کی قانونی حیثیت واضح کر دی گئی ہے بلکہ اگر آئندہ بھی کوئی نیا نشہ متعارف ہوا تو اس کے لیے اس بل میں ترمیم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ بلکہ ایک اعلامیے سے ہی اسے غیر قانونی قرار دے کر اس کی سزا تجویز کر دی جائے گی۔
منشیات روک تھام بل کے نئے قانون کے تحت کوئی بھی شخص کرسٹل میتھ کے کسی قسم کے کاروبار میں براہ راست یا بالواسطہ ملوث پائے جانے پر مندرجہ ذیل سزائیں مقرر کر دی گئی ہیں ۔
100 گرام مقدار برآمد ہونے پر سات سال کی سزا اور تین لاکھ کا جرمانہ عائد ہوگا۔
ایک کلوگرام تک میتھ برآمد ہونے پر دس سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ عائد ہوگا۔
ایک کلو گرام سے زائد پر 14 سال یا عمر قید اور دس لاکھ جرمانہ عائد ہوگا۔
اس بل کے مطابق ، کوئی بھی شخص بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کوئی جگہ یا سازوسامان جس سے آئس یا دوسرے منشیات تیار ہوتے ہیں، کو آپریٹ یا کنٹرول نہیں کرے گا۔ خلاف ورزی کی صورت میں دس سال قید ہوگی جو کہ 25 سال تک بھی بڑھائی جا سکتی ہے۔