قصور کے وکلا نے سال کے ’سب سے بڑے پہاڑی بکرے‘ کا شکار کر لیا

قصور کے شہری احمد شیخ اور عفان انور ایڈووکیٹ نے محکمہ جنگلی حیات گلگت سے پانچ لاکھ روپے کے عوض بولی میں شکار کا اجازت نامہ (لائسنس) حاصل کرنے کے بعد پہاڑی بکرے یعنی آئی بیکس شکار کیا۔

قصور کے دو وکلا کا کہنا ہے کہ انہوں نے سال 2023 کے دوران ’سب سے بڑے پہاڑی بکرے‘ کا قانونی طور پر شکار کر لیا ہے۔

قصور کے شہری احمد شیخ اور عفان انور ایڈووکیٹ نے محکمہ جنگلی حیات گلگت سے پانچ لاکھ روپے کے عوض بولی میں شکار کا اجازت نامہ (لائسنس) حاصل کرنے کے بعد پہاڑی بکرے یعنی آئی بیکس شکار کیا۔

گلگت بلتستان حکومت ہر سال آئی بیکس اور مار خور کے شکار کے لیے باقائدہ اجازت نامے جاری کرتی ہے۔ شکار کے لیے اجازت ناموں کی سرکاری طور پر بولی لگائی جاتی ہے۔ مار خور پاکستان کا قومی جانور بھی ہے۔

عفان انور نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں اور احمد شیخ آئی بیکس اور مارخور کے شکار کا شوق رکھتے ہیں۔ مارخور پاکستانی شہریوں کو شکار کرنے کی اجازت نہیں اس کے لیے یا تو خصوصی اجازت نامہ چاہیے یا غیر ملکی ہونا ضروری ہے۔

’لہذا ہم نے چھ لاکھ روپے بولی دے کر آئی بیکس کے شکار کا اجازت نامہ حاصل کیا۔ آئی بیکس جو مار خور سے ہی ملتا جلتا جانور ہے لیکن مختلف پہاڑوں پر پایا جاتا ہے۔ اس کا شکار بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

عفان کے بقول: ’ہم 13 دسمبر 2023 کی رات گلگت کے پہاڑی علاقے سست پہنچے اور اگلے دن 14 دسمبر کو شکار گاہ میں پہنچ گئے جو علاقہ محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے شکاریوں کے لیے مختص کیا ہوتا ہے۔ دو دن ہم نے شکار گاہ میں گزارے جہاں منفی 17 گریڈ درجہ حرارت تھا۔

’ایک دن کوشش کی لیکن ہم شکار نہیں کر سکے۔ دوسرے دن ایک ہزار میٹر کی بلندی پر جاکر آئی بیکس یعنی ہمارا شکار ہدف پر آیا۔ تین گھنٹے کی جدوجہد کے بعد ہم نے 360 یارڈ کے فاصلے سے نشانہ لگایا جس سے وہ شکار ہوکر گر پڑا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’رائفل کے فائر سے آئی بیکس 1500 میٹر سے نیچے گرا اور ہم نے اسے پکڑ لیا۔ ہمیں یہ خوبصورت ٹرافی ملی۔ ہم ان چند شکاریوں میں سے ہیں جنہیں یہ موقع ملا اس جانور جو 45.3 انچز ہے اور سال کا شکار ہونے والا سب سے بڑا آئی بیکس ہے۔‘

آئی بیکس یا مارخور کے شکار کا لائسنس کیسے ملتا ہے؟

محکمہ جنگلی حیات گلگت بلتستان خنجراب نیشنل پارک میں ہر سال حکومتی آمدن کے لیے مختلف جانوروں کے شکار کے لائسنس جاری کرتی ہے جن میں سب سے زیادہ بولی دینے والے شکاری لائسنس (اجازت نامے) حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گلگت بلتستان محکمہ جنگلی حیات کی جانب سے جاری کردہ تحریری اجازت نامے کہا گیا ہے کہ ’کوئی بھی شکاری آٹو میٹک اسلحہ استعمال نہیں کرے گا۔

’لائسنس حاصل کرنے کے لیے پہلے رجسٹریشن کرانا لازمی ہوتی ہے اس کے بعد جانوروں کے شکار میں دلچسپی رکھنے والے شکاری جس جانور کے شکار میں دلچسپی ظاہر کریں گے ان کے درمیان بولی کرائی جائے گی۔ جو سب سے زیادہ رقم ادا کرے گا اسے اجازت نامہ دے دیا جائے گا۔‘

اجازت نامے میں کہا گیا ہے کہ ’شکار گاہ کس پہاڑی پر ہوگی اس کا تعین محکمہ جنگلی حیات کرے گا۔ انتظامیہ کا ایک نمائندہ لائسنس ہولڈر کے ساتھ موجود ہوگا جو انہیں اصول وضوابط کے مطابق شکار کرنے کو یقینی بنائے گا۔ خلاف ورزی پر شکاری کے خلاف فوری کارروائی اس نمائندے کا اختیار ہوگا۔‘

شکاریوں کو لائسنس گلگت بلتستان تحفظ جنگلی حیات ایکٹ 1975 کے تحت جاری کیے جاتے ہیں۔ ایک بار حاصل کیا گیا لائسنس صرف چھ ماہ کی مدت کے لیے قابل استعمال ہوتا ہے۔ کسی وجہ سے شکار نہ کرنے کی صورت میں پرمٹ فیس برقرار رہتی ہے۔

رواں ماہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع لوئر چترال کے توشی شاشا کمیونٹی کے زیر انتظام گیم ریزرو میں ایک امریکی شہری نے 2 لاکھ 12 ہزار امریکی ڈالر کی خطیر رقم دے کر ساڑھے نو سالہ کشمیر مارخور کا شکار کیا تھا۔

وائلڈ لائف ڈویژن چترال کے ڈویژنل فارسٹ افسر فاروق نبی نے اتوارکومیڈیا کو جاری بیان میں کہا تھا کہ ’مارخور کے شکار کے لیے امریکی شہری ڈیرون جیمز مل مین کو پہاڑوں کے اوپر نہیں جانا پڑا اور ملحقہ شالی گاؤں کے قریب گندم کے کھیت میں ہی وہ شکار کرنے میں کامیاب رہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات