بحیرہ احمر میں مال بردار جہازوں کو نشانہ بنانے والے یمن کے حوثی ملیشیا کے حملوں میں اضافے کے بعد بڑی شپنگ کمپنیوں نے آبنائے باب المندب کے آمد و رفت کے اس اہم راستے سے سفر روک دیا ہے۔
امریکہ نے اس اہم ترین بحری گزرگاہ کی حفاظت کے لیے ایک کثیر القومی بحری ٹاسک فورس تشکیل دینے کے کا اعلان کیا ہے لیکن اگر یہ تنگ سمندری پٹی تجارت کے لیے بند ہو جاتی ہے تو اس کے دنیا پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
آبنائے باب المندب کہاں واقع ہے؟
باب المندب، جس کا عربی میں ترجمہ ’آنسوؤں کا دروازہ‘ ہے، بحیرہ احمر کے جنوبی سرے پر ایک تنگ آبی گزرگاہ ہے جوخلیج عدن سے ہوتے ہوئے بحر ہند میں جا ملتی ہے۔
یہ سمندری پٹی جزیرہ نما عرب کے یمن کو شمال مشرقی افریقی ممالک جبوتی اور اریٹیریا سے الگ کرتی ہے۔
تقریباً 100 کلومیٹر طویل اور 30 کلومیٹر چوڑی یہ آبی گزرگاہ یمن کے ساحلی شہر راس مینہیلی اور جبوتی میں راس سیان تک پھیلی ہوئی ہے جس کا شمالی سرا بحیرہ احمر اور جنوبی سرا خلیج عدن میں کھلتا ہے۔
اس سمندری موڑ پر جزیرہ بريم آبنائے کو دو شپنگ لینز میں تقسیم کرتا ہے۔
Defense Secretary Lloyd Austin sets up a maritime task force. Houthi rebels still say they 'will not stop' Red Sea attackshttps://t.co/7FbugpnKWr
— Al-Monitor (@AlMonitor) December 19, 2023
سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟
بحیرہ احمر یورپ اور ایشیا کے درمیان ایک اہم آبی گزرگاہ کے طور پر کام کرنے کے ساتھ یہ آبنائے دنیا کی مصروف ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے۔
بحر ہند سے آنے والے تیل کے ٹینکرز اور مال بردار بحری جہاز بحیرہ احمر اور پھر نہر سویز تک پہنچنے کے لیے اسی آبی گزرگاہ سے گزرتے ہیں جہاں سے وہ یورپ اور امریکہ جانے کے لیے بحیرہ روم میں داخل ہوتے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق ہر سال تقریباً 20 ہزار بحری جہاز یہاں سے گزرتے ہیں جو یومیہ لاکھوں بیرل تیل اور ایشیا سے درآمد کیے جانے والا سامان لے کر جاتے ہیں۔
لندن میں قائم انٹرنیشنل چیمبر آف شپنگ (آئی سی ایس) کے مطابق بحری جہازوں سے ہونے والی عالمی تجارت کا 12 فیصد بحیرہ احمر سے گزرتا ہے۔
پینٹاگون کے مطابق یہ اعداد و شمار 10 سے 15 فیصد کے درمیان ہیں۔
لندن میں ہی قائم ایک اور ادارے ’ایس اینڈ پی کموڈٹی‘ کے مطابق اس آبنائے کے ذریعے تیل کی ترسیل 2023 کی پہلی ششماہی میں بحری جہازوں کے ذریعے درآمد کیے جانے والے کل تیل کا تقریباً 12 فیصد تھا جب کہ اسی عرصے کے دوران اس گزرگاہ سے مائع قدرتی گیس کی ترسیل تمام اشیا کی تجارت کا تقریباً آٹھ فیصد تھی۔
حوثیوں کے حملے عالمی تجارت کو کیسے متاثر کر رہے ہیں؟
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سینئر فیلو نوم ریڈان نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا اسرائیل سے منسلک کچھ جہازوں نے بظاہر اس بحری گزرگاہ سے اجتناب کرتے ہوئے افریقہ اور کیپ آف گڈ ہوپ کے گرد طویل راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طویل راستے سے جہازوں کو رفتار، بڑھتے ہوئے اخراجات اور تاخیر جیسے مسائل کا سامنا ہے اور یہ سفر تقریباً 19 دن سے 31 دن تک طویل بن گیا ہے۔
عالمی تیل کی منڈی حالیہ حملوں سے پریشان ہیں۔ لیکن اس گمرگاہ کی بندش سے قیمتوں کے بڑھنے کا بھی خدشہ ہے۔
حوثیوں کے حملوں سے فوری اثر بیمہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ویسل پروٹیکٹ آپریشنز کے سربراہ منرو اینڈرسن نے کہا کہ رواں ہفتے ہونے والے حملے بحیرہ احمر میں جہازوں کے لیے بڑھتے ہوئے خطرے کو ظاہر کرتی ہیں اور خطے میں تجارتی جہاز رانی کے لیے ایک اہم رکاوٹ سمجھی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’تازہ ترین واقعہ بحیرہ احمر میں تجارتی آپریٹرز کو درپیش مزید عدم استحکام کی نمائندگی کرتا ہے جس کا امکان ہے کہ مختصر سے درمیانی مدت میں بیمہ کی شرح بڑھ جائیں گی۔‘
لویڈز لسٹ انٹیلی جنس کے انشورنس ایڈیٹر ڈیوڈ اوسلر نے کہا کہ بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں کے لیے انشورنس کی لاگت دوگنی ہو گئی ہے جس سے جہازوں کے سفر میں لاکھوں ڈالر کا اضافہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی جہاز کے مالکان کے لیے یہ قیمتیں اس سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہیں، تقریباً 250 فیصد تک۔
انہوں نے کہا کہ جب صارفین اناج سے لے کر تیل تک ہر چیز ایمازون سے خریدتے ہیں تو ان پر 50 سے 100 ڈالر فی کنٹینر کے نام نہاد جنگی خطرے کا چارج لگایا جا رہا ہے۔
کیا حوثی بحیرہ احمر کو بند کر سکتے ہیں؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا امکان نہیں ہے۔ حوثیوں کے پاس کوئی باضابطہ بحری فوج اور جنگی جہاز نہیں ہیں جن کی مدد سے اس گزر گاہ کا گھیراؤ کیا جائے۔ وہ ہراساں کرنے کے لیے فائرنگ پر انحصار کرتے ہیں اور اب تک صرف ایک ہیلی کاپٹر سے حملہ کیا گیا ہے۔ دریں اثنا امریکی، فرانسیسی اور دیگر اتحادی جنگی جہاز آبی گزرگاہ کو کھلا رکھتے ہوئے علاقے میں گشت کر رہے ہیں۔
شپنگ چیمبر کے سٹاؤپرٹ نے کہا کہ اس کے باوجود بھی یہ حملے جہاز رانی کی صنعت کو پریشان کر رہے ہیں اور اسے سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے۔ بحیرہ احمر سے بہت زیادہ تجارت ہوتی ہے کیونکہ یہ یورپ اور ایشیا کے لیے ایک اہم سپلائی لائن ہے۔
انتہائی فوجی علاقہ
یہ خلیج، جہاں نہر سوئز اور آبنائے ہرمز اور باب المندب واقع ہیں، دنیا کے انتہائی عسکری (ملٹریائزڈ) علاقوں میں سے ایک ہے۔
امریکہ نے افریقہ میں چار ہزار فوجیوں کی تعیناتی کے ساتھ وہاں اپنا واحد مستقل اڈہ قائم کر رکھا ہے۔ چین نے بھی 2017 میں یہاں ملک سے باہر اپنا پہلا فوجی اڈہ کھولا تھا۔
فرانس نے بھی اس خطے میں 15 سو فوجیوں کے ساتھ غیرملکی سرزمین پر اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے اس خطے میں نئی فوجی صف بندیاں دیکھنے میں آئی ہیں جیسا کہ یمن کی حوثی ملیشیا نے دھمکی دی ہے کہ وہ اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے کسی بھی جہاز پر حملہ کریں گے اور وہ اپنی کاروائیوں کو تیز کر چکے ہیں۔
دنیا کی چار بڑی شپنگ کمپنیوں سی ایم اے سی جی ایم گروپ، ہیپیگ لایڈ، مارکس اور ایم ایس سی نے اپنے بحری جہازوں کا رخ موڑ دیا ہے جب کہ تیل کی بڑی برطانوی کمپنی بی پی نے اس اقدام کے تحت ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
منگل کو حوثی ملیشیا نے ناروے کے ایک ٹینکر پر میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
گذشتہ ماہ انہوں نے اسرائیل میں رجسٹرڈ ایک کارگو جہاز گلیکسی لیڈر اور اس کے 25 بین الاقوامی عملے کو پکڑ لیا تھا۔
ٹاسک فورس کا قیام
برطانوی حکومت نے پیر کو کہا کہ رائل نیوی کا ایک جہاز ڈسٹرائر بحیرہ احمر اور خلیج عدن میں جہازوں کی حفاظت کے لیے ایک نئی بین الاقوامی میری ٹائم پروٹیکشن فورس میں شامل ہو گیا ہے۔
اس سے قبل امریکہ نے پیر ہی کو 10 ملکی اتحاد کا اعلان کرتے ہوئے حوثیوں کے ڈرون اور میزائل حملوں کو روکنے کے لیے کثیر القومی ٹاسک فورس خطے میں تعینات کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے ترجمان نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ہمیں یقین ہے کہ امریکی اور برطانوی بحری افواج ٹاسک فورس اور خاص طور پر ہمارے فرانسیسی اتحادیوں کے ساتھ مستقبل کے حملوں کو روکنے اور مال بردار جہازوں کی حفاظت کے لیے کافی صلاحیت فراہم کریں گی۔‘