لال مسجد سے ملحقہ جامعہ حفصہ کی زمین پر تعمیرات 15 روز میں ہٹانے کا حکم

سی ڈی اے نے لال مسجد کی انتظامیہ کو جامعہ حفصہ کی جگہ پر دوبارہ تعمیر روکنے اور تعمیر شدہ ڈھانچے کو 15 روز میں ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔

اسلام آباد کی انتظامیہ کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے سیکٹر جی سکس میں واقع لال مسجد کی انتظامیہ کو جامعہ حفصہ کی جگہ پر دوبارہ تعمیر روکنے اور تعمیر شدہ ڈھانچے کو 15 روز میں ہٹانے کا حکم دے دیا ہے۔

سی ڈی اے کی جانب سے بھیجے کیے گئے نوٹیفیکیشن، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، کے مطابق: ’اتھارٹی کے نوٹس میں آیا ہے کہ متعلقہ جگہ پر اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری بلڈنگ کنٹرول ریگولیشنز 2020 کی خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔‘ اور ’بلڈنگ پلانز کی منظوری کے بغیر غیر قانونی تعمیرات‘ کی گئی ہیں۔

سی ڈی اے حکام نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’خلاف ورزی کرتے ہوئے جس عمارت کی تعمیر کی گئی، اسے 15 روز میں نہ روکا گیا تو سی ڈی اے قوانین کے مطابق سات روز کا شوکاز نوٹس جاری کیا جائے گا۔ اس کے بعد بھی حکم پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو متعلقہ جگہ کو منہدم یا سیل کر دیا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ متعلقہ زمین پر جامعہ حفصہ اور چلڈرن لائبریری تھی، جنہیں سال 2007 میں فوجی آپریشن کے بعد منہدم کر دیا گیا تھا۔

آپریشن کے بعد لال مسجد کے اس وقت کے خطیب مولانا عبدالعزیز کی قیادت میں حکومت اور مسجد انتظامیہ کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس کے تحت سی ڈی اے نے سیکٹر ایچ 11 میں جامعہ حفصہ کی تعمیر نو کے لیے متبادل جگہ فراہم بھی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب لال مسجد انتظامیہ کے نمائندے مولانا عبدالعزیز نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2007 میں چیف جسٹس نے آپریشن کے بعد یہ فیصلہ سنایا تھا کہ جامعہ حفصہ تعمیر کر کے دینے، بجلی و گیس کے بل ادا کرنے اور تنخواہیں ادا کرنے کا کہا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا:’16 سال گزرنے کے باوجود حکومت نے ان احکامات پر عمل نہیں کیا۔ ہم نے مجبور ہو کر یہیں پر جامعہ کی تعمیر شروع کی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود اسے خود تعمیر کر کے دینا چاہیے تھا۔ اب سکولوں اور کالجوں کا حال خراب ہو گیا ہے تو طالبات مدارس کا رخ زیادہ کر رہی ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ سیکٹر ایچ 11 میں جامعہ حفصہ کی تعمیر کیوں نہیں کی گئی؟ مولانا عبدالعزیز نے جواب دیا کہ ’گذشتہ 12 برس سے اس جگہ پر کام بلاوجہ بند کروا دیا گیا تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ انہیں کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا ہے۔ ’جب اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ سنا دیا جائے تو اس نوٹس کی حیثیت نہیں رہتی۔ حکومت کو خود اس کی تعمیر کر کے دینی چاہیے تھی۔‘

تعمیر نہ رکنے پر انتظامیہ کی جانب سے کارروائی کی صورت سے متعلق سوال پر مولانا عبدالعزیز نے کہا کہ ایسی صورت حال میں وہ اپنا دفاع کرنا جانتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان