پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کے فیصلے کو معطل کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو بلا بطور انتخابی نشان استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔
عدالت نے کہا کہ چھٹیوں کے ختم ہونے کے بعد ڈبل بینچ میں کیس سنا جائے۔
پشاور ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کا انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ معطل کیا جاتا ہے اور نو جنوری تک یہ عدالتی فیصلہ نافذالعمل ہوگا۔
تحریری حکم نامے کے مطابق تمام فریقین کو اس حوالے سے نو جنوری کے لیے نوٹسز جاری کیے جائیں اور الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر پی ٹی آئی کو انتخابی نشان الاٹ کرنے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیا جائے۔
پی ٹی آئی نے آج دائر کی گئی اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی انتخابات کروانے کے طریقے سے متعلق فیصلہ دینے کا اختیار نہیں اور جن لوگوں نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کیا، وہ پارٹی رکن ہیں ہی نہیں۔
درخواست میں الیکشن کمیشن اور انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں کو بھی فریق بنایا گیا۔
درخواست میں عدالت سے سینیئر ججوں پر مشتمل بینچ بنانے اور آج ہی سماعت کے لیے مقرر کرنے کی بھی استدعا کی گئی تھی۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 22 دسمبر کو پاکستان تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات پر محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے انتخابات کو کالعدم قرار دیا تھا اور جماعت سے بلے کا نشان واپس لے لیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ پی ٹی آئی نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات پارٹی آئین کے مطابق نہیں کروائے، لہذا جماعت بلے کے نشان کی اہل نہیں ہے۔
اس فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے کہا تھا کہ ان کی جماعت انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی بلکہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کرے گی۔
آٹھ فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا سلسلہ 24 دسمبر کو ختم ہوچکا ہے اور اب ان کی جانچ پڑتال کا سلسلہ جاری ہے۔
سماعت کا احوال
سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جب کوئی پارٹی اپنے انٹرا پارٹی پول کی تفصیلات الیکشن کمیشن کو فراہم کرتی ہے تو کمیشن عام طور پر ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے اور اسے اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرتا ہے۔
’یہ سرٹیفکیٹ پھر سیاسی جماعت کو اپنا انتخابی نشان حاصل کرنے کا اہل بناتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ابھی تک الیکشن کمیشن نے وہ سرٹیفکیٹ اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ نہیں کیا۔
انہوں نے الیکشن کمیشن کی ہدایات کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھیننا ناانصافی ہے۔
’آٹھ لاکھ سے زیادہ ممبران کے ساتھ پارٹی کے اندر سے کسی نے بھی پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے بارے میں تشویش کا اظہار نہیں کیا۔‘
انہوں نے الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے والے افراد کی مطابقت پر بھی سوال اٹھایا۔
وکیل نے کہا کہ یہ عام شہری ہیں ان کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایسے مقدمات میں سول عدالتیں مناسب ٹرائل کے بغیر فیصلے نہیں دے سکتیں۔
’الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمر ایوب سیکرٹری جنرل نہیں ہیں، اس لیے وہ کوئی تقرری نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ تقرریوں میں غلطیوں کے باوجود انہیں الیکشن کمیشن میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل آج پی ٹی آئی نے ای سی پی کے حکم کو چیلنج کیا اور عدالت پر زور دیا کہ وہ اس معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیے طے کرے۔
درخواست کے مطابق پی ٹی آئی نے کہا کہ ای سی پی کا حکم ’قانونی اختیار اور دائرہ اختیار کے بغیر‘ تھا۔
پارٹی نے اصرار کیا کہ الیکشن کمیشن کی کارروائی جس نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات پر سوال اٹھائے وہ ’کورم نان جوڈیس (دائرہ اختیار کے بغیر) اور قانونی اختیار کے بغیر‘ تھی۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ وہ الیکشن کمیشن کو ہدایت کرے کہ وہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کے نتائج اپنی ویب سائٹ پر شائع کرے اور پارٹی کا نشان بحال کرے۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس اختیار ہے کہ اگر اس کو مکمل ڈاکومنٹس فراہم نہیں کیے جاتے تو وہ اس پارٹی کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ 2018 الیکشن میں اس پارٹی نے حصہ لیا تو یہ رجسٹرڈ پارٹی ہے اور جب ایک پارٹی رجسٹرڈ ہو اور اس نے الیکشن کروائے ہوں اور سرٹیفیکٹ جمع کیا ہو تو پھر کیسے انھوں نے کہا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں الیکشن کمیشن صاف اور شفاف انتخابات کروائے۔‘
جسٹس کامران حیات نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ لوگ آئے ہیں ہم نے آپ کو سنا اب تو کچھ کرنا ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اگر آپ نہ آتے تو ہو سکتا ہے میں اس (درخواست) کو دو جنوری کو جو بھی ڈویژن بینچ ہوتا اس کو بھیج دیتا۔‘
عدالت نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ پارٹی امیدواروں کو کب تک ٹکٹ جاری کیا جاتا ہے اس کی آخری تاریخ کیا ہے؟ اور اگر پارٹی سے انتخابی نشان لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے؟
جسٹس کامران حیات نے بتایا کہ اگر مسلم لیگ سے شیر، پیپلزپارٹی سے تیر اور جے یو آئی سے کتاب واپس لے لیے جائیں تو کیا ہو گا؟
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔