اسرائیلی فوج کی قید سے رہائی پانے والے غزہ کے تین فلسطینی بھائیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکام نے دوران قید انہیں اور ان کے ساتھیوں کو مارا پیٹا، انہیں سگریٹ سے جلایا گیا اور ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے صبحی یاسین، ان کے بھائی سعدی اور ابراہیم نے اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں اپنے ساتھ ہوئے سلوک کے بارے میں تفصیلات بتائیں۔
انہوں نے درجنوں دیگر فلسطینی نوجوانوں کے ساتھ جنوبی غزہ کے علاقے رفح کے ایک سکول میں پناہ لے رکھی تھی۔
گو کہ خبر رساں ادارہ روئٹرز آزادانہ طور پر ان کے بیانات کی تصدیق نہیں کر سکا لیکن اسرائیلی قید سے رہائی پانے والے 20 سے زائد دیگر سابق قیدیوں کی بیان کردہ تفصیلات بھی سعدی اور ان کے بھائیوں کے بیانات سے مطابقت رکھتے ہیں جنہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز سے بات کی ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی افواج کے ترجمان کے دفتر نے ایک تحریری جواب میں کہا ہے کہ ’اسرائیلی فوج ’حماس کی فوجی صلاحیتوں کو ختم کرنے‘ اور فلسطینی گروپ کے پاس قیدیوں کو بازیاب کرانے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘
دفتر کا کہنا ہے کہ ’حراست میں لیے گئے افراد کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کے مطابق سلوک کیا جاتا تھا اور اکثر انہیں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کپڑے اتارنے پڑتے تھے کہ ان کے پاس ہتھیار یا دھماکہ خیز مواد نہیں ہے۔‘
یاسین برادران کا کہنا ہے کہ انہیں غزہ کی پٹی کے شمال میں واقع ان کے گھروں سے نکال کر ان کے اہل خانہ سے الگ کر دیا گیا اور دو ہفتوں تک نامعلوم مقامات پر رکھا گیا۔ ان مقامات میں ایک فوجی بیرک یا کیمپ بھی شامل ہے۔
صبحی نے کہا کہ انہیں اور ان کے بھائیوں کو دسمبر کے اوائل میں اس وقت حراست میں لیا گیا تھا جب اسرائیلی فوج نے اس علاقے کا محاصرہ کیا جہاں وہ رہتے تھے اور غزہ شہر کے علاقے زیتون میں یومیہ مزدور کے طور پر کام کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ’چار فوجیوں نے ہمیں پیٹا کیوں کہ میں گرفتاری سے قبل ٹانگ میں چوٹ لگنے کی وجہ سے ٹرک پر چڑھنے سے قاصر تھا، جس کے بعد ہمیں ایک کھلے علاقے میں لے جایا گیا جہاں اغوا کار ’سگریٹ نوشی کر رہے تھے اور ہماری پیٹھ پر سگریٹ لگا رہے تھے، ہم پر ریت اور پانی کا چھڑکاؤ کر رہے تھے۔‘
ان کے بھائیوں سعدی اور ابراہیم نے بھی اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں بدسلوکی کے بارے میں اسی طرح کی تفصیلات بیان کیں۔
سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے سرحد پار حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی پر حملہ کیا تھا جس کے بارے میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس حملے میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے تھے۔
غزہ حکام کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں تاحال 21 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر(او ایچ سی ایچ آر) نے 16 دسمبر کو کہا تھا کہ اسے اسرائیلی فوج کی جانب سے شمالی غزہ میں فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر حراست میں لینے، بدسلوکی اور جبری گمشدگی کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
او ایچ سی ایچ آر نے کہا کہ ’بین الاقوامی انسانی قانون کا تقاضا ہے کہ شہریوں کو صرف ضروری سکیورٹی وجوہات کی بنا پر حراست میں لیا جائے اور قیدیوں پر تشدد اور دیگر بدسلوکی سختی سے ممنوع ہے۔‘
رواں ماہ کے شروع میں غزہ سے نیم برہنہ قیدیوں تصاویر پر فلسطینی، عرب اور کئی مسلمان ممالک کے حکام کی جانب سے شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔
2021 سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ممکنہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کرنے والے بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) کے پراسیکیوٹر نے اسرائیل اور حماس پر زور دیا ہے کہ وہ جنگ کے بین الاقوامی قوانین کا احترام کریں۔
آئی سی سی پراسیکیوٹر آفس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ سمیت فلسطینی علاقوں میں ہونے والے مبینہ جرائم کے احتساب کو یقینی بنانے کے لیے تمام دستیاب ذرائع استعمال کر رہا ہے، لیکن مخصوص الزامات پر تبصرہ نہیں کیا۔
رفح میں پناہ لیے یاسین برادرز کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج نے ان کے خلاف کوئی خاص الزامات عائد نہیں کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے انہیں ایک ساتھ پکڑا گیا اور پھر الگ کر دیا گیا۔
سعدی نے بتایا کہ انہیں دیگر قیدیوں کے ساتھ کچرے سے بھرے ٹرک میں رکھا گیا تھا۔
ان میں سے کچھ نے اپنی کلائیوں پر خراشیں اور سرخ جلد دکھائی جہاں ان کے بقول ان کے ہاتھ باندھے گئے، اور ایک نے اپنی پیٹھ پر چوٹ اور گول سرخ نشان دکھایا ہے۔ ایک اور شخص نے اپنی ران پر سلائی کا نشان دکھایا جہاں اس نے بتایا کہ اسے مارا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یاسین کے تیسرے بھائی ابراہیم نے بتایا کہ جب انہیں تفتیش کے لیے رکھا گیا تو ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔
ابراہیم نے کہا کہ ’اغوا کاروں نے قیدیوں کی بے عزتی کی جبکہ انہیں ایک دوسرے سے بات کرنے یا نماز پڑھنے سے بھی روک دیا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے بعد پانچ فوجی تھے جو انہیں باری باری سر اور جسم پر مارتے تھے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انہیں پسلیوں میں مارا اور ان کی آستینں چڑھائی گئیں تاکہ جہاں سے ان کی کلائیاں باندھی گئی تھیں وہاں سے زخموں کے نشانات دیکھے جائیں۔
اسرائیلی فوج نے ان بھائیوں کو بھی مختلف اوقات میں اسرائیل اور غزہ پٹی کے درمیان کیریم شالوم کراسنگ پر چھوڑ دیا تھا جیسا کہ اس نے اپنی زمینی کارروائی کے دوران حراست میں لیے گئے دیگر افراد کے ساتھ کیا۔
تینوں بھائیوں نے بتایا کہ کئی کلومیٹر پیدل چل کر وہ رفح پہنچے جہاں انہوں نے ایک دوسرے کو ان لاکھوں بے گھر افراد میں تلاش کیا جو اب خیموں اور عمارتوں میں رہ رہے ہیں۔