بلے کا نشان واپس، تحریک انصاف کا سپریم کورٹ جانے کا اعلان

پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کے کی جانب سے تحریک انصاف کو بلے کا نشان واپس لینے کا فیصلہ معطل کیا تھا جسے آج بحال کر دیا گیا ہے۔

ملتان میں پاکستان تحریک انصاف کی 20 جون، 2018 کو منعقدہ ریلی کے دوران جماعت کے حامی انتخابی نشان بلا اٹھائے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

پشاور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلے کا انتخابات نشان نہ دینے سے متعلق الیکشن کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب اسلام آباد میں آج تحریک انصاف کی انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے درخواست پر سماعت ہوئی۔

الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو اپنے ایک فیصلے میں پی ٹی آئی کی طرف سے حال ہی میں کرائے گئے انٹرا پارٹی انتخابات کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس جماعت کو بلے کا انتخابی نشان نہ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

اس فیصلے کے خلاف پی ٹی آئی نے پشاور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل ایک رکنی بینچ نے 26 دسمبر کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔

جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے نظر ثانی کی اپیل دائر کی تھی اور بدھ کو جسٹس اعجاز خان نے کمیشن کے فیصلے کو بحال کر دیا۔ 

بدھ کی سہ پہر عدالت عظمی کے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ان کی جماعت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ اگر انہیں سپریم کورٹ سے بھی بلے کا نشان نہ ملا تو اس کے باوجود وہ میدان خالی نہیں چھوڑیں گے اور پی ٹی آئی الیکشن میں حصہ ضرور لے گی۔

سماعت کے دوران پی ٹی آئی اے کے وکیل قاضی انور نے عدالت کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم کرنے کا اختیار نہیں ہے لیکن الیکشن کمیشن کے وکیل کا موقف تھا کہ 20 سیاسی پارٹیوں کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کیسز الیکشن کمیشن میں زیر سماعت ہے اور 13 جنوری سے پہلے ان کا فیصلہ کیا جانا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو جہاں انتخابات کے لیے لیول پلینگ یعنی یکساں مواقع نا ملنے کی شکایت ہے وہیں پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے بعد اس سیاسی مشکلات بدھ کو مزید بڑھتی نظر آ رہی ہیں۔

سپریم کورٹ میں لیول پلیئنگ فیلڈ کے حوالے سے تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت:

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے آئندہ عام انتخابات میں لیول پلیئنگ فیلڈ یعنی سب جماعتوں کے لیے یکساں مواقع سے متعلق پاکستان  تحریک انصاف کی درخواست پر بدھ کو سماعت کے دوران کہا کہ عدالتیں الیکشن کے لیے ہر سیاسی جماعت کے پیچھے کھڑی ہے۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی شامل تھے۔

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کی درخواست پر مزید کہا کہ ’آپ ٹربیونل میں اپیلیں دائر کریں اس کے بعد ہمارے پاس آئیں تو سن لیں گے۔‘

چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل شعیب شاہین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے اپنی درخواست میں کوئی بھی ایک مخصوص الزام نہیں لگایا، آپ نے 2013 کے الیکشن میں بھی الزامات لگائے، عدالت نے تب بھی وقت ضائع کیا تھا اور کوئی ٹھوس الزام نہ نکلا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’’سپریم کورٹ کیسے کہہ دے کہ فلاں پارٹی کے کاغذات منظور کریں اور فلاں کے مسترد؟‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سماعت کے دوران جب سینیئر وکیل لطیف کھوسہ روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کو روسٹرم پہ بلایا اور کہا کہ آپ نے درخواست دائر کی ہے اس لیے آپ دلائل دیں۔ اس پر شعیب شاہین نے کہا کہ لطیف کھوسہ دلائل دیں گے میں ساتھ کھڑا ہوں گا۔

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ’ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے۔ میں نے ساری تفصیل درخواست میں لگائی ہے۔‘

چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ’توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا وہ کہیں گے ہمارا تعلق نہیں، آپ انفرادی طور پر لوگوں کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں تو الگ درخواست دائر کریں۔ جس کے بھی کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کرے گا بات ختم۔‘

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ ’سردار‘ لکھنے پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں، 1976 کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کے ساتھ اب مزاق کرنا بند کر دیں۔ سردار اور نوابوں کو چھوڑ دیں اب غلامی سے نکل آئیں، سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔‘

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ’توہین عدالت کا کیس ہے یہ کوئی نئی درخواست نہیں ہے، الیکشن کمیشن نے آپ کے مطابق جو توہین کی وہ بتائیں، الیکشن کمیشن نے آپ کو آرڈر کیا دیا؟ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے؟‘

اس موقع پر چیف جسٹس نے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں ہر کوئی یہاں آ کر سیاسی بیان شروع کر دیتا ہے اور (یہ بتائیں) چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے؟‘

لطیف کھوسہ نے جواباً کہا کہ ’ہمیں اپیل کرنے کے لیے آر او (ریٹرنگ آفیسر) آرڈرز کی نقل تک نہیں مل رہی۔ تین دن تک آرڈر کی کاپی نہیں ملی۔ اپیل کہاں کریں۔‘

چیف جسٹس نے انہیں جواب دیا کہ ’آر او کے فیصلے کی کاپی نہیں ملتی تو کاپی کے بغیر ٹربیونل میں درخواست دیں۔‘

چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ ’آپ چاہتے ہیں ہم الیکشن کمیشن کا کام کریں۔ آپ کا ہر دوسرا بیان سیاسی ہے انتخابی پروگرام آ چکا ہے کچھ لوگ خوش ہیں کچھ خوش نہیں ہیں۔ آپ اتنے بے یار و مددگار نہ ہوں، جائیں جا کر ٹربیونلز میں اپیلیں دائر کریں، کوئی ڈیفالٹر ہو سکتا ہے، ہو سکتا ہے کسی کے کاغذات غلط مسترد ہوئے ہوں، کاغذات نامزدگی سے تعلق ہر کیس انفرادی ہے، الگ الگ دیکھنا ہو گا۔‘

لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ ’ہماری شکایت پر الیکشن کمیشن نے تمام صوبوں کے آئی جیز کو ہدایات دیں، آئی جیز کا اس لیے اس کیس سے تعلق ہے۔‘

لطیف کھوسہ نے عدالت سے کہا کہ ’الیکشن کمیشن نے ہماری شکایت پر صرف صوبوں کو ایک خط لکھ دیا، کیا الیکشن کمیشن صرف ایک خط لکھ کر ذمہ داریوں سے مبرا ہو گیا؟ صرف کاسمیٹک عملدرآمد نہیں عدالت بنیادی حقوق کی محافظ ہے آپ نے شفاف الیکشن یقینی بنانے ہیں۔‘

چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے کہا کہ ’موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو آپ نے ہی تعینات کیا تھا ہم نے نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی اپنی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں، ہمارا 22 دسمبر سے سخت  کوٸی اور آرڈر نہیں ہوسکتا، اس کے بعد الیکشن کمیشن کی کوئی شکایت کی ہو تو بتا دیں۔‘

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ’تاریخ کی بدترین پری پول دھاندلی ہو رہی ہے، آر اوز دفتر کے باہر سے لوگوں کو اُٹھا لیا جاتا ہے اس معاملے پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتی، میرے اپنے بیٹے کو گرفتار کیا گیا۔‘

جسٹس میاں محمد علی مظہر نے الیکشن کمیشن حکام سے استفسار کیا کہ ’کیا آپ انہیں لیول پلیئنگ فلیڈ دے رہے ہیں؟‘ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ ’ان کی ہر شکایات کو ہم نے متعلقہ اتھارٹی کو بھیجا جہاں قانون کے مطابق اس پر فیصلے ہوئے۔‘

سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری پنجاب، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور آئی جی پنجاب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کیا ہے اور سماعت آٹھ جنوری تک ملتوی کر دی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان