بنگلہ دیش: الیکشن سے قبل پرتشدد واقعات، اپوزیشن رہنماؤں کی گرفتاری

پولیس نے ڈھاکہ میں ایک مسافر ٹرین کو آگ لگانے کے الزام میں اپوزیشن کے ساتھ رہنماؤں کو پکڑ لیا۔ اتوار کو الیکشن سے قبل کم از کم پانچ پرائمری سکولوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔

بنگلہ دیش کی پولیس  نے ہفتے کو حزب اختلاف کی جماعت کے سات ارکان کو گرفتار کر لیا جن پر اتوار کو ہونے والے عام انتخابات سے قبل ایک مسافر ریل گاڑی کو مبینہ طور پر نذر آتش کرنے کا الزام ہے۔

واقعے میں چار لوگوں کی جان گئی جب کہ آٹھ افراد زخمی ہو گئے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعے کی رات کو آگ نے وسطی ڈھاکہ میں انٹرسٹی بیناپول ایکسپریس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جس کے بعد سینکڑوں افراد نے مسافروں کو جلتی ہوئی بوگیوں سے نکالا۔

گذشتہ سال کے آخر سے ریلوے خدمات کو نذر آتش کرنے کے سلسلے میں یہ تازہ ترین واقعہ ہے۔

پولیس نے اس عمل کو ’تخریب کاری کی جان لیوا کارروائی‘ قرار دیتے ہوئے اس کا الزام حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) پر عائد کیا ہے۔

پولیس نے بتایا کہ ڈھاکہ میں بی این پی کے سینیئر رہنما نبی اللہ نبی اور پارٹی کے چھ دیگر کارکنوں کو ہفتے کو علی الصبح ڈھاکہ سے گرفتار کیا گیا۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے ترجمان فاروق حسین نے اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ ’نبی اللہ نبی نے اس حملے کے لیے مالی معاونت کی اور وہ اس کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔‘

بی این پی سمیت درجنوں دیگر اپوزیشن جماعتوں نے عام انتخابات کا بائیکاٹ کر رکھا ہے۔

حزب اختلاف کا کا کہنا ہے کہ یہ الیکشن ایک ’دکھاوا‘ ہیں جس کا مقصد طویل عرصے سے وزیر اعظم چلی آنے والی شیخ حسینہ کی اقتدار پر گرفت مضبوط بنانا ہے۔

بی این پی نے ٹرین کو نذر آتش کرنے کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اور ایسے واقعات کی بین الاقوامی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

بی این پی کے ترجمان اے کے ایم وحید الزمان نے اے ایف پی کو بتایا: ’ یہ حکومتی اہلکاروں کی جانب سے پہلے سے طے شدہ تخریب کاری کی کارروائیاں ہیں جن کا مقصد بی این پی کی تشدد سے پاک تحریک کو بدنام کرنا ہے۔‘

76 سالہ حسینہ واجد کو یقین ہے کہ وہ اتوار کو ہونے والی ووٹنگ میں مسلسل پانچویں مدت کے لیے وزیر اعظم منتخب ہو جائیں گی۔

حزب اختلاف کی جماعتوں نے گذشتہ سال حسینہ واجد کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے انتخابات کی نگرانی اور ان کی سالمیت کو یقینی بنانے کے لیے غیر جانبدار نگران حکومت قیام کے حق میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

اتوار کو ہونے والے انتخابات سے قبل اب تک 15 لوگ جان سے جا چکے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ٹرین میں لگنے والی آگ میں جن چار لوگوں کی جان گئی ان میں سے دو بچے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ نامعلوم افراد نے کم از کم پانچ پرائمری سکولوں کو بھی آگ لگا دی جن میں چار پولنگ بوتھ شامل ہیں۔

پولیس کے مطابق ڈھاکہ کے مضافات میں واقع غازی پور میں اتوار کو ہونے والے پولنگ میں خلل ڈالنے کے مقصد سے آدھی رات کو لگنے والی آگ کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

غازی پور پولیس کے سربراہ قاضی شفیق العالم نے کہا کہ ’ہم نے گشت تیز کر دیا ہے اور ہائی الرٹ ہیں۔‘

پولیس نے بتایا کہ آگ لگانے والوں نے شمال مشرقی اضلاع مولوی بازار اور ہبی گنج میں پولنگ بوتھوں پر بھی حملہ کیا۔

ساحلی ضلع کھلنا میں پولیس نے جمعرات کی رات ایک سکول کو آگ لگانے کی کوشش کے الزام میں دو افراد کو گرفتار کیا۔

ضلعے کے پولیس سربراہ سعید الرحمٰن نے بتایا کہ اگلے دن قریبی پرائمری سکول کو آگ لگانے کی ایک اور کوشش ناکام بنا دی گئی۔

ہفتے کو ڈھاکہ کی عام طور پر مصروف رہنے والی سڑکیں بڑی حد تک ویران ہیں جب کہ سکیورٹی فورسز بکتر بند گاڑیوں میں گشت کر رہی ہیں۔

اتوار کو تقریباً آٹھ سکیورٹی اہلکار پولنگ بوتھوں کی حفاظت کریں گے  جب ملک بھر میں امن وامان برقرار رکھنے میں معاونت کے لیے فوج کو بھی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

’حقیقی انتخاب کا وجود ہی نہیں‘

کبھی غربت کی چکی میں پسنے والے ملک بنگلہ دیش کو حسینہ واجد کی حکمران جماعت عوامی لیگ نے دنیا کو ٹاپ فاسٹ فیشن برانڈز فراہم کرنے والی کپڑوں کو منافع بخش صنعت کی مدد سے ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے۔

لیکن ان کے دور میں انسانی حقوق کی بہت زیادہ خلاف ورزیاں بھی ہوئیں، جن میں سکیورٹی فورسز پر ماورائے عدالت قتل، پریس اور شہری آزادیوں کو سلب کرنے والے قوانین اور حزب اختلاف کے خلاف بے رحمانہ کریک ڈاؤن کے الزامات شامل ہیں۔

عوامی لیگ جن نشستوں پر الیکشن لڑ رہی ہے، وہاں انہیں بہت کم یا کسی مؤثر حریف کا سامنا نہیں، لیکن اس نے بہت تھوڑی سی نشستوں کے لیے امیدوار کھڑے نہیں کیے، جو بظاہر مقننہ کو یک جماعتی ادارہ قرار دیے جانے سے بچنے کی ایک واضح کوشش ہے۔

بہت سے نوجوان رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ ان کا اس الیکشن میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں، جسے وہ ایسے مقابلے کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں حقیقی انتخاب کا وجود ہی نہیں۔

کمپیوٹر سائنس گریجویٹ 28 سالہ سوہانور رحمٰن نے ڈھاکہ میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا: ’میں یک طرفہ انتخابات کے لیے اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘

حزب اختلاف کی بڑی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) اور دیگر جماعتوں نے گذشتہ سال متعدد ریلیاں نکالی تھیں، جن میں حسینہ واجد سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ اتوار کو ہونے والے انتخابات کی نگرانی کے لیے ایک غیر جانب دار نگران حکومت کے حق میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔

پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈاؤن میں بی این پی کی پوری مقامی قیادت سمیت تقریباً 25 ہزار اپوزیشن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ تعداد 11 ہزار ہے اور مزید ہزاروں روپوش ہیں۔

بی این پی نے شہریوں سے انتخابات میں حصہ نہ لینے کی اپیل کی ہے اور ہفتے سے ملک میں دو روزہ ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

دنیا کے آٹھویں سب سے زیادہ آبادی والے اس ملک کی سیاست پر طویل عرصے سے ملک کے بانی رہنما کی بیٹی حسینہ واجد اور سابق فوجی حکمران کی اہلیہ خالدہ ضیا کے درمیان کشمکش چھائی ہوئی تھی۔

2009 میں اقتدار میں واپس آنے کے بعد سے 76 سالہ حسینہ واجد فیصلہ کن فاتح رہی ہیں اور بعد میں بڑے پیمانے پر بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے الزامات کے ساتھ ہونے والے دو انتخابات میں انہوں نے اپنی طاقت کو مضبوط کیا ہے۔

دوسری جانب 78 سالہ خالدہ ضیا کو 2018 میں بدعنوانی کے الزام میں سزا سنائی گئی تھی اور وہ اس وقت دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

ان کے بیٹے طارق رحمٰن نے لندن سے ان کی جگہ بی این پی کی قیادت کی ہے، جہاں وہ 2008 سے جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انہیں ملک میں متعدد مجرمانہ سزاؤں کا سامنا ہے۔

طارق رحمٰن نے اے ایف پی کو بتایا کہ ان کی جماعت نے دیگر درجنوں جماعتوں کے ساتھ مل کر ’پہلے سے طے شدہ‘ نتائج والے الیکشن میں حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’حسینہ واجد کی قیادت میں انتخابات میں حصہ لینا بنگلہ دیشی عوام کی امنگوں کے خلاف اور ان لوگوں کی قربانیاں مجروح کرنا ہوگا جنہوں نے جمہوریت کے لیے جنگ کی، خون بہایا اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔‘

’پہلے سے طے شدہ شو‘

حسینہ واجد نے بی این پی پر گذشتہ سال کی احتجاجی مہم کے دوران آتش زنی اور تخریب کاری کا الزام عائد کیا تھا۔ اگرچہ یہ مہم زیادہ تر پر امن تھی لیکن پولیس جھڑپوں میں متعدد افراد مارے گئے تھے۔

بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز کو طویل عرصے سے طاقت کے بے تحاشا استعمال کے الزامات کا سامنا رہا ہے، تاہم حکومت نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

17 کروڑ کی آبادی والے اس ملک کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ امریکہ نے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے ملزم ایلیٹ پولیس یونٹ اور اس کے بڑے کمانڈروں پر پابندی عائد کردی ہے۔

تجزیہ کاروں اور حزب اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد میں اضافے کے لیے ایسا طریقہ استعمال کرتے ہوئے ووٹ کی ساکھ بڑھانے کی کوشش کریں گی، جس میں ووٹ نہ دینے والوں کے لیے حکومتی فوائد روکنے کی دھمکیاں بھی شامل ہیں۔

الینوائے سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر علی ریاض نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’کسی بھی معیار کے مطابق اسے ’الیکشن‘ کہنا مناسب نہیں ہوگا۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’اسے حکمراں جماعت کے پہلے سے طے شدہ (سٹیج مینیجڈ) شو کے طور پر بہتر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کوئی اخلاقی جواز نہیں بنتا۔‘

’ممکنہ طور پر خطرناک امتزاج‘

حسینہ واجد کی مقبولیت کا مرکزی ستون طویل عرصے سے معیشت میں ان کی قیادت رہی ہے، لیکن روزمرہ کی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

ادائیگیوں کے توازن کے مسئلے کی وجہ سے بنگلہ دیش 2022 میں اپنے پاور پلانٹس کے لیے کافی تیل حاصل نہیں کر سکا تھا، جس کی وجہ سے مہینوں تک باقاعدگی سے بلیک آؤٹ رہا۔

گارمنٹس سیکٹر میں اجرتوں میں جمود نے گذشتہ سال کے آخر میں صنعتی بدامنی کو جنم دیا، جس میں کچھ فیکٹریوں کو نذر آتش اور سینکڑوں کو بند کردیا گیا۔ یہ سیکٹر ملک کی 55 ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات کا تقریباً 85 فیصد ہے۔

انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے پیئر پرکاش کا کہنا ہے کہ ووٹوں سے مایوسی سیاسی تشدد کو جنم دے سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے حکومت کے جبر میں اضافہ ہو سکتا ہے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور ممکنہ طور پر واشنگٹن کی طرف سے مزید پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں جو ’ممکنہ طور پر ملک کی معاشی مشکلات کو مزید بڑھا دیں گی۔‘

پرکاش نے کہا کہ حسینہ واجد کی حکومت واضح طور پر ’چند سال پہلے کے مقابلے میں کم مقبول تھی۔ ’یہ ایک ممکنہ طور پر خطرناک امتزاج ہے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا