عام انتخابات کے انعقاد میں ایک ماہ رہ گیا ہے، لیکن ملک کی ایک بڑی جماعت مسلم لیگ ن نے ماسوائے بلوچستان کے ابھی تک کسی اور صوبے سے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کا اعلان نہیں کیا اور نہ ہی باقاعدہ انتخابی مہم کا آغاز کیا ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس لیے قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں بھی اس صوبے سے ہیں اور نظریں بھی اس صوبے پر ہیں کہ مسلم لیگ ن کس کو میدان اتارتی ہے۔
میڈیا پر چند روز قبل مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے ناموں کی ایک فہرست بھی گردش کرتی دکھائی دی، جس کے بارے میں کہا گیا کہ جماعت نے اپنے امیدواروں کی حتمی فہرست بنا لی ہے مگر اس حوالے سے پارٹی کی رہنما مریم اورنگزیب نے سماجی رابطوں کی سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پیغام میں اس فہرست کی تردید کر دی۔
مسلم لیگ ن نے اب پنجاب سے پارٹی ٹکٹ ہولڈرز کا اعلان 10 جنوری کو کرنے کا عندیہ دیا ہے، مگر اس میں بھی ابھی یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
دوسری جانب اسی تاخیر کے سبب جماعت کی انتخابی مہم کے آغاز کا بھی باقاعدہ اعلان نہیں ہو سکا۔
پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کی سیکرٹری اطلاعات عظمیٰ بخاری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس وقت سب کی نظریں اس بات پر ہیں کہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹوں کا اعلان کب ہوگا۔ ’یہی خبر ہے، یہی ہیڈ لائن ہے اور یہی سب کچھ ہے اور اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ مسلم لیگ ن کا ٹکٹ کتنا اہم اور کتنا مضبوط ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہے تو پاکستان مسلم لیگ ن یقیناً ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اور ہمارے پاس لوگوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے جگہ بہت کم ہے، لیکن جن لوگوں نے گذشتہ 16 مہینے میں ہمارا ساتھ دیا اور وہ لوگ جو پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، ظاہری بات ہے ان کو بھی ایڈجسٹ کرنا کسی نہ کسی حد تک اہم ہے۔‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ابھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا، اسی لیے پارٹی کے ٹکٹوں کے اعلان میں تاخیر ہو رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ تاخیر بس اب ایک دو دن کی ہی ہے اور 10 جنوری تک اعلان ہونے کا امکان ہے۔ ’ہم اس وقت ہر چیز کے آخری مراحل پر ہیں، اس لیے اس پر مزید تبصرہ کرنا مناسب نہیں ہوگا۔‘
سینیئر سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار وجاہت مسعود کا خیال ہے کہ ’پاکستان مسلم لیگ ن کے بارے میں قوی امکان ہے کہ وہ حکومت بنائے گی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ تمام حلقوں کے مضبوط امیدوار مسلم لیگ ن کا ٹکٹ چاہتے ہیں اور مسلم لیگ ن کو خدشہ ہے کہ ایک طاقتور امیدوار کو ٹکٹ دیا جاتا ہے تو دوسرا جو انیس بیس کے فرق کے ساتھ طاقتور ہے وہ ان کے ووٹوں کو نقصان بہنچا سکتا ہے۔‘
بقول وجاہت مسعود: ’میں نہیں سمجھتا کہ استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ ایک آدھ سیٹ کے علاوہ کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا امکان ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کے مخالفین نے پہلے ہی یہ تاثر بنا دیا ہے کہ یہ جماعت لاڈلی ہے اور یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر اقتدار میں آنا چاہتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’استحکام پاکستان پر تو پہلے ہی اسٹیبلشمنٹ کی مہر لگی ہوئی ہے، اس لیے میری نظر میں استحکام پاکستان پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کوئی زیادہ سنجیدہ معاملہ نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کے لیے یہ سیاسی طور پر نقصان دہ ہو گا۔‘
سیاسی تجزیہ کار ماجد نظامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مسلم لیگ نواز کی روایت ہے کہ وہ انتخابی ٹکٹیں عین وقت پر جاری کرتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ 2018 میں جماعت چونکہ مشکلات کا شکار تھی، ان پر کئی اطراف سے دباؤ تھا، اس لیے اس وقت امیدواروں پر اتنا کام نہیں کیا گیا لیکن 2013 میں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ ٹکٹ دیے گئے۔
’اب 2024 میں بھی منصوبہ بندی کے ساتھ ٹکٹوں کا اعلان کیا جا رہا ہے کیونکہ مسلم لیگ ن یہ تاثر دینا چاہتی ہے کہ آنے والی حکومت ان کی ہے اس لیے وہ ہر حلقے کے اوپر بہت غور و فکر کر رہے ہیں۔‘
سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے ماجد نطامی نے کہا: ’ایسا لگ رہا ہے کہ استحکام پاکستان پارٹی کی تگڑی سفارش ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو انہیں ایڈجسٹ کرنا پڑے گا۔ میرا نہیں خیال کہ انہیں کوئی بہت زیادہ سیٹیں ملیں گی لیکن کہیں نہ کہیں مسلم لیگ ن ان کے لیے گنجائش پیدا کرے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ استحکام پاکستان پارٹی کا بھی کوئی بہت بڑا مطالبہ نہیں ہے آہستہ آہستہ وہ اپنے نمبر کم کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ پہلے وہ 25 اور 45 تک گئے، اس کے بعد 10 سے 20 پر آ گئے اور اب یہ سننے میں آرہا ہے کہ بڑے رہنماؤں کو اگر ایڈجسٹ کر لیا جائے تو بھی ٹھیک ہے جبکہ چھوٹے رہنما آزاد امیدوار کے طور پر مسلم لیگ ن کے مقابلے میں اپنا انتخاب لڑ لیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ لاہور میں عون چوہدری اور علیم خان کا نام آرہا ہے جبکہ لودھراں میں بھی مسلم لیگ ن کی جانب سے صدیق بلوچ کے حوالے سے کوششیں کی گئیں، لیکن اس پر بھی کوئی حتمی اعلان سامنے نہیں آیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان دو وجوہات کی بنا پر مسلم لیگ ن اپنے ٹکٹوں کا اعلان تاخیر سے کرے گی تاکہ اتنی دیر میں وہ اپنے تمام ناراض امیدواروں کو وعدے کر کے ایڈجسٹ کر سکے۔ کسی کو سینیٹ کا اور کسی کو لوکل گورنمنٹ میں ایڈجسٹ کرنے کا وعدہ کریں گے اور یہ سب کچھ مینج کرنے کے بعد ہی مسلم لیگ ن اپنے ٹکٹوں کا اعلان کرے گی۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔