سعودی عرب سے آشنا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کے لیے جدہ اجنبی لفظ ہو۔
یہ شہر سعودی عرب کا تجارتی اور سیاحتی دروازہ ہے جس کے ذریعے نہ صرف سعودی عرب کی سمندری تجارتی سامان کی آمد ورفت ہوتی ہے بلکہ مذہبی یا تفریحی سیاحت کے لیے آنے والے زائرین یہیں سے ہی مملکت میں داخل ہوتے ہیں۔
جدہ آج ایک جدید شہر کی تصویر پیش کرتا ہے اور سعودی عرب کے 21 فیصد بڑے اور چھوٹے بازار اسی شہر میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن اس کی شہر کی تاریخ کافی پرانی ہے جس کا محور جدہ کا ساحل ہے۔ شہر کی میونسپلٹی کی ویب سائٹ کے مطابق آج سے تین ہزار برس قبل مچھیروں کی آبادیاں تھیں جو بعد ازاں شہر کی شکل اختیار کر گئیں۔ وہ ساحل جہاں سے اس شہر کی بنیاد پڑی وہاں آج ’جدہ اسلامک پورٹ‘ قائم ہے جو اپنی اہمیت اور تاریخ کے اعتبار سے مخصوص مقام رکھتی ہے۔
بندرگاہ کی تاریخ
جدہ کی تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے طارق متبولی بتاتے ہیں کہ ابتدائی اسلامی دور میں سمندری راستے سے آنے والے حجاج مکہ کے جنوب میں واقع شعیبہ نامی علاقے کو بطور بندرگاہ استعمال کرتے تھے۔
سن 26 ہجری میں اس بندرگاہ کو تبدیل کرنے کی ضرورت پیش آئی تو خلیفہ وقت حضرت عثمان بن عفانؓ خود جدہ تشریف لائے اور یہاں حجاج کے لیے نئی بندرگاہ کی بنیاد رکھی۔
طارق متبولی مزید کہتے ہیں کہ مختلف کتب میں ذکر ہے کہ حضرت عثمانؓ نے جدہ کے سمندر کے پانی سے وضو بھی فرمایا جو اہل جدہ کے لیے باعث سعادت اور فخر ہے۔
جدہ کے قدیم علاقے جدہ التاریخیہ میں آج بھی حضرت عثمان سے موسوم ایک قدیم مسجد قائم ہے۔
سعودی مؤرخ ڈاکٹر عدنان الیافی اس بندرگاہ کی تاریخ سے متعلق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ کے بعد جدہ کی بندرگاہ تجارتی اور سیاحتی آمد ورفت کا مرکز بن گئی۔ اموی دور میں جدہ مکہ سے مکمل طور پر منسلک تھا اور مکہ کے ساحل کے علاوہ بیت المال بھی جدہ ہی تھا۔
عباسی دور میں بندرگاہ کے علاوہ شہر کی آبادی بھی بڑھنے لگی اور شام ودیگر ممالک سے تجارتی سامان کی نقل وترسیل ہوتی رہی۔ بعد ازاں مملوکی دور میں جدہ بندرگاہ کے ذریعے پوری دنیا سے جڑ گیا اور خلیجی ممالک، چین اور انڈیا سے جہاز یہاں لنگر انداز ہونے لگے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برصغیر کے حجاج کی آمد
برصغیر کے مسلمان عرصہ دراز تک حج کے لیے سمندری راستہ ہی استعمال کرتے تھے۔ جدہ بندرگاہ حرمین شریفین کے لیے ان کی پہلی منزل ہوتی تھی۔
پاکستانی جریدے بزنس ریکارڈر میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’History of Pilgrimage by Sea‘ کے مطابق برصغیر کے حجاج مغلیہ دور کے اواخر تک مکہ جانے کے لیے بری اور بحری دونوں راستے استعمال کرتے تھے، تاہم زمینی راستہ لمبا، مشکل اور پرخطر ہوتا تھا، لہذا حجاج بحیرہ احمر کے راستے کو ترجیح دیتے تھے۔
تاہم 16ویں صدی عیسوی میں قزاقوں کا خطرہ بڑھنے اور پرتگیز افواج کی موجودگی کی وجہ سے یہ راستہ بھی دشواریوں سے خالی نہیں رہا، جن کو حل کرنے کی صورت پرتگیز اجازت نامہ کا حصول ہوتج تھا۔
برطانوی دور میں سفر حج پر توجہ دی گئی اور اس کا باقاعدہ انتظام کرنے کے لیے مشہور سیاحتی ایجنسی تھامس کوک کو سرکاری طور پر حج کا ٹریول ایجنٹ کا مقرر کیا گیا۔
1927 میں ممبئی پولیس کے کمشنر کی سربراہی میں دس رکنی حج کمیٹی تشکیل دی گئی چنانچہ سن 1927 میں ہندوستان سے آنے والے 36 ہزار حجاج میں سے 20 ہزار مغل لائنز کمپنی کے سمندری جہازوں میں جدہ کی بندرگاہ تک پہنچے تھے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ عرب نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سے پہلا جہاز جدہ کی بندرگاہ پر 1952 میں لنگر انداز ہوا اور حجاج کی آمد ورفت کا یہ سلسلہ آب و تاب کے ساتھ ستر کی دہائی تک چلتا رہا۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے نوئے سالہ محمد رمضان نے 1947 میں سمندر کے راستے حج کا سفر کیا تھا۔ انہوں نے جریدہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے بحری جہاز کا ٹکٹ چھ ہزار روپے میں خریدا تھا اور اس سفر کا دورانیہ سات دن اور سات راتیں تھیں۔
ہوائی جہاز سے سفر آسان اور سستا ہونے کے بعد سمندری راستے سے حج کی روایت ختم ہوگئی۔ 2014 میں پورٹس اینڈ شپنگ کے وزیر کامران مائیکل نے جدہ کی بندرگاہ کے لیے حج سمندری حج سروس دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
بعدازاں وفاقی وزیر علی زیدی نے بھی اس حوالے سے عزم کا اظہار کیا تاہم پاکستانی سرکاری ویب سائٹ پر2023 کے حج اعداد وشمار میں سمندری راستے سے جانے والے عازمین کا کوئی ذکر نہیں ہے، البتہ سوڈان اور دیگر ممالک سے آج بھی جدہ پورٹ کے ذریعے حج کے لیے حجاج آتے رہتے ہیں۔