سال نو پر چیئرمین قومی احتساب بیورو (نیب) کی زیر صدارت نیب ایگزیکٹیو بورڈ کا اہم اجلاس ہوا جس میں سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ پر قائم کیا گئے ایک کرپشن کیس بند کرنے کی منظوری دے دی گئی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے ستمبر 2023 میں نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے بعد نیب کو 50 کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کیسز کو بھی دوبارہ کھولنے کا اختیار ملا تھا۔
اکتوبر 2023 میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف وفاقی حکومت نے اپیل دائر کی جس کے بعد عدالت نے 31 اکتوبر 2023 کو اپیلوں پر سماعت کی۔
نیب ترامیم کے فیصلے کے خلاف اپیلوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’نیب ترامیم کیس کے فیصلے کو معطل نہیں کریں گے۔ صرف احتساب عدالتوں کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکیں گے۔‘
تاہم معلومات کے مطابق دوبارہ کھولے گئے کیسز کو ایگزیکٹیو بورڈ کے سامنے پیش کیا جانا تھا تاکہ اس کی منظوری مل سکے۔
ایگزیکٹیو بورڈ کا ایک اجلاس گذشتہ برس 10 دسمبر کو ہوا تھا جبکہ یکم جنوری 2024 کو ہونے والے اجلاس میں شریف ٹرسٹ سمیت دیگر کیسز کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
یہ تحقیقات کس قانون کے تحت بند کی گئیں؟
نیب نے شہباز شریف حکومت کی جانب سے ترمیم شدہ نیب ایکٹ 2022 کے سیکشن 31 بی کے تحت تحقیقات بند کر دی ہیں۔
نیب ایکٹ سیکشن 31 بی: زیر التوا کارروائی کو واپس لینا اور ختم کرنا:۔ (1) کسی ریفرنس کی پیروی سے قبل، چیئرمین، نیب پراسیکیوٹر جنرل کے ساتھ مشاورت سے، حقائق، حالات اور شواہد کی مجموعی حیثیت کو دیکھتے ہوئے، جزوی طور پر اس ایکٹ کے تحت کسی بھی کارروائی کو مکمل طور پر، مشروط یا غیر مشروط طور پر واپس لے سکتے ہیں یا ختم کر سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ غیر منصفانہ ہو۔
(2) ریفرنس دائر کرنے کے بعد، اگر چیئرمین نیب پراسیکیوٹر جنرل کی مشاورت سے، حقائق، حالات اور شواہد کی کُلیت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ خیال کرے کہ ریفرنس جزوی یا مکمل طور پر ناجائز ہے، تو وہ سفارش کر سکتا ہے کہ جس عدالت میں یہ معاملہ زیر التوا ہے کہ وہاں ریفرنس جزوی طور پر یا مکمل طور پر واپس لیا جا سکتا ہے یا ختم کیا جا سکتا ہے۔
(i) اگر یہ ریفرنس الزام عائد کیے جانے سے پہلے بنایا گیا ہو، تو ملزم کو اس معاملے میں ڈسچارج کر دیا جائے گا اور (ii) اگر یہ ریفرنس الزام عائد کیے جانے کے بعد دائر کیا گیا ہے، تو وہ ایسے جرم یا جرائم کے سلسلے میں بری ہو جائے گا۔ نواز شریف کیس کے علاوہ، پانچ انکوائریز کو بھی بند کیا گیا ہے۔
شریف ٹرسٹ کیس
یہ 24 سال پرانا کیس ہے۔ شریف ٹرسٹ کیس میں تحقیقات کی منظوری 31 مارچ 2000 کو دی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شکایت میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ شریف فیملی نے شریف ٹرسٹ میں خفیہ طور پر کروڑوں روپے وصول کیے ہیں۔
یہ الزام بھی لگایا گیا کہ رقم خرد برد کر کے ٹرسٹ کے کھاتوں کا آڈٹ ہی نہیں کرایا گیا۔
شریف ٹرسٹ کیس میں یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ شریف خاندان نے ٹرسٹ کے نام پر بے نامی جائیدادوں کے اثاثے بنا رکھے ہیں۔
پانامہ پیپرز میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2000 میں منظوری کے بعد سے شریف ٹرسٹ کیس میں تحقیقات کو نیب نے بلا جواز تاخیر کا شکار کر رکھا ہے۔
لہذا نیب کو ہدایت کی جائے کہ وہ جلد تحقیقات مکمل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے۔
نیب ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے فیصلے میں مزید کیا ہے؟
سرکاری دستاویز کے مطابق نیب نے ایگزیکٹیو بورڈ نے نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف شریف ٹرسٹ کیس میں نیب تحقیقات بند کرنے کی منظوری دی۔
اس کے علاوہ آئی جی اسلام آباد اکبر ناصر خان کے خلاف سیف سٹی کرپشن کیس کی انکوائری، سی ڈی اے افسران کے خلاف پارک انکلیو ہاوسنگ سوسائٹی انکوائری، وفاقی حکومت کے افسران کے خلاف من پسند افراد کو بھرتی کرنے کی انکوائری اور شاہد ملک اور شہباز یاسین ملک کے خلاف بھی انکوائری بند کرنے کی منظوری کی منظوری دی۔
نیب ترامیم کالعدم ہونے کے باوجود کیا نیب خود سے کیس جاری رکھنے یا بند کرنے کا فیصلہ کر سکتا ہے ؟
سینئر قانون دان شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چئیرمین نیب کے پاس اختیار ہے اگر وہ چاہیں تو ایگزیکٹیو بورڈ کی مشاورت سے انکوائری کے مرحلے پر بھی کیس بند کر سکتے ہیں اور ریفرنس دائر ہونے کے بعد بھی کیس بند کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی وجہ بتا کر، جس عدالت میں مقدمہ زیر التوا ہے ، انہیں زبانی یا تحریری طور پر کیس خارج کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسا نیب کے کسی بھی کیس یا ریفرنس میں کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ انہوں نے ایون فیلڈ اور العزیزیہ میں پیروی نہیں کی اور اعتراض نہیں کیا جس کے باعث نواز شریف کی بریت ہوئی۔‘ شاہ خاور کا کہنا ہے ’بہرحال اس کو ریلیف تو کہیں گے چاہے کیس انکوائری سٹیج پر ہی تھا لیکن 24 سال پرانا کیس بند ہونا بھی ریلیف ہی ہے۔‘
صحافی و تجزیہ کار حسنات ملک نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کیس ابھی ابتدائی انکوائری کے مرحلے پر تھے، اس کے بعد انویسٹیگیشن ہونی تھی اور ریفرنس فائل ہونا تھا۔ اس لیے یہ کیس نواز شریف کے لیے خطرہ نہیں تھا۔ خطرہ انہیں ایون فیلڈ اور العزیزیہ سے تھا جس میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے وہ بری ہو چکے ہیں۔‘
حسنات کا کہنا ہے کہ ’نواز شریف کے لیے تاحیات نااہلی ( سے چھٹکارہ) اصل ریلیف ہے۔ لیکن یہ ہے کہ ایک قانونی باب اس کیس کا بند ہو گیا ہے ۔ لیکن جن کیسز میں نیب ریفرنس فائل کر چکی ہے وہ اب عدالتوں نے ہی فیصلے کرنے ہیں۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔