نگران پنجاب حکومت نے موسم سرما کی تعطیلات کے بعد 10 جنوری سے سکول کھول دیے ہیں اور تمام سرکاری و نجی سکولوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ سکول صبح ساڑھے نو بجے شروع کریں۔
حکومت کے اس فیصلے سے جہاں کچھ والدین خوش ہیں وہیں کچھ تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ جو والدین دونوں کام پر جاتے ہیں انہیں صبح نو بجے دفتر پہنچنا ہوتا ہے اور کچھ نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو مدنظررکھتے ہوئے اب تعلیمی پالیسیاں تبدیل کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ایڈیشنل سیکریٹری ایجوکیشن پنجاب قیصر رشید کا انڈپینڈںٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سکولوں کے اوقات صرف دو ہفتوں کے لیے تبدیل کیے گئے ہیں اور اس کی وجہ سردی کی شدت اور سموگ ہے۔
انہوں نے کہا: ’صبح سردی کی شدت چھوٹے بچوں کے لیے زیادہ ہوتی ہے اس لیے وقت تبدیل کرنے سے انہیں تھوڑا آرام مل جائے گا کہ علی الصبح نہیں نکلنا ہوگا۔
’جب آپ نے موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے کچھ چیزوں کی کریش ہنڈلنگ کرنی ہے تو کچھ مشکلات تو آئیں گی۔‘
سعدیہ اقبال اور ان کے شوہر بینک ملازمین ہیں اور ان کا دفتر پہنچنے کا وقت صبح نو بجے ہے۔
سعدیہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں دو ایک سکول اور ایک بچہ کسی اور سکول میں جاتا ہے۔
سعدیہ کے مطابق پہلے جب سکول آٹھ بجے لگتا تھا تو وہ صبح بچوں کو سکول چھوڑ کر وقت پر بینک پہنچ جاتی تھیں اور واپسی پر ان کے شوہر کھانے کے وقفے کے دوران بچوں کو سکول سے لے کر ان کی والدہ کے ہاں چھوڑ دیتے تھے اور دفتر سے چھٹی کے بعد وہ دونوں اپنے بچوں کو والدہ کے گھر سے لے لیتے۔
’مجھے معلوم تھا کہ ہم اب مینیج نہیں کر پائیں گے تو میں نے اپنی بہن جو یونیورسٹی میں پڑھتی ہیں انہیں کہا۔ بدھ کو وہ بچوں کو لینے آئیں اور تینوں بچوں کو اپنی گاڑی پر سکول چھوڑا اور پھر وہ یونیورسٹی گئیں۔‘
سعدیہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا: ’واپسی کا اور مسئلہ ہے کیونکہ بچوں کو چھٹی تین بجے ہوتی ہے اور اس وقت تو ہم لنچ بریک نہیں کر سکتے اس لیے میری بہن ہی پہلے دونوں چھوٹے بچوں کو لیں گی، پھر بڑے والے کو سکول سے اٹھائیں گی اور امی کے گھر لے جائیں گی لیکن اس سب میں انہیں اپنی یونیورسٹی کی ایک آدھ کلاس مس کرنا ہوگی۔‘
انوشہ فہد کے بھی تین بچے ہیں اور ان تینوں کو ان کے شوہر سکول چھوڑ کر نو بجے دفتر پہنچ جاتے تھے۔
انوشہ خود گاڑی نہیں چلا سکتیں اس لیے انہوں نے اپنی ہمسائی سے درخواست کی کہ وہ ان دنوں اپنے بچوں کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی سکول چھوڑ دیں اور سکول سے لے بھی لیں۔
’ایک طرح سے تو اچھا ہے کہ بچوں کو صبح سویرے سردی میں اٹھنا نہیں پڑتا لیکن آپ کے بچے آپ کی اپنی ذمہ داری ہوتے ہیں، ہمسائے بہت اچھے ہیں لیکن پھر بھی ایک فکر سی ہے کہ ہم بچوں کو کسی اور کے ساتھ بھیج رہے ہیں اور یہ بھی کہ ہم نے ان پر اپنے بچوں کو لانے لے جانے کا بوجھ ڈال دیا ہے۔‘
بچوں اور والدین کی اوقات کا میچ نہ کرنے کے حوالے سے ایڈیشنل سیکریٹری ایجوکیشن پنجاب قیصر رشید کا کہنا تھا کہ ’یہ ارینجمنٹ دو ہفتے کے لیے کیا گیا ہے لیکن یہ بھی ہے ہم نے بچے اتنے اتنے فاصلوں پر سکولوں میں داخل کروائے ہوئے ہیں۔
’یہ پابندی ہونی چاہیے کہ آپ نے اپنے بچے کو اپنے ہی علاقے کے قریبی سکول میں داخل کروانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کبھی امریکہ یا برطانیہ میں ایک علاقے کا بچہ دوسرے علاقے کے سکول میں داخل نہیں کیا جاتا۔
ردا عزیز کے خیال میں سردیوں کی چھٹیاں دسمبر کی بجائے جنوری میں ہونی چاہییں۔
’میرا بیٹا او لیول میں ہے اور جب سے وہ سکول جانا شروع ہوا ہے تب سے میں یہ بات کرتی ہوں کہ جس دن موسم سرما کی تعطیلات ختم ہوتی ہیں اسی دن سے دھند اور زیادہ والی ٹھنڈ شروع ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں دسمبر تو اتنا ٹھنڈا اب ہوتا ہی نہیں ہے۔‘
ردا کا کہنا ہے: ’اتنے سالوں سے میں یہ دیکھ رہی ہوں لیکن حکومت کے ذہن میں نہ کبھی یہ چیز آئی ہے نہ ان کے دماغ میں ڈالی گئی ہے نہ کبھی اس پر بات ہوئی ہے۔ چھٹیاں دسمبر کی بجائے جنوری میں ہونی چاہییں۔ حکومت کو پورا تعلیمی سال پلان کرنا چاہیے۔‘
ردا عزیز کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ویسے تو صبح ساڑھے نو بجے کا وقت ان ماؤں کے لیے بہترین ہے جو گھر رہ کر امور خانہ داری سر انجام دیتی ہیں لیکن چونکہ چھٹی کا وقت اڑھای اور کچھ جماعتوں کے لیے تین اور ساڑھے تین بھی رکھا گیا ہے اس سے بچوں کی روٹین بالکل خراب ہو جائے گی کیونکہ ان کے پاس پڑھائی کے علاوہ کسی سرگرمی کے لیے وقت نہیں بچ رہا۔‘
ردا کے خیال میں: ’بچے یہی کہیں گے کہ ہم نے کیا صرف پڑھنا ہے کیونکہ بچے سکول سے آتے ہیں تو قاری صاحب آجاتے ہیں، پھر سکول کا کام اور ظہر کی نماز تو ویسے بچے نہیں پڑھ پائیں گے اور دوسرا آآپ دیکھیں کہ دوپہر کا کھانا کتنا لیٹ ہو جائے گا تو بچوں کی روٹین تو خراب ہو گئی اس طرح بچوں کا موڈ بھی خراب ہو گا کہ انہیں کھیلنے کا یا اپنی کوئی اور سرگرمی کرنے کا کوئی وقت نہیں ملےگا۔‘
’جنوری یقیناً سرد ہے‘
اس حوالے سے ایڈیشنل سیکریٹری ایجوکیشن پنجاب کا کہنا تھا: ’گذشتہ ایک دو برس سے جنوری کا مہینہ یقیناً سرد ہے چھٹیاں جنوری میں کرنے کے لیے تکینیکی رائے تو محکمہ موسمیات ہی ٹھوس وجوہات کے ساتھ دیگر محکموں اور حکومت کو دے سکتا ہے۔‘
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ اس ایشو کو میڈیا ہائی لائٹ کر سکتا ہے کہ وہ قومی و بین الاقوامی ماہرین کو بٹھائے کہ اب دنیا میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم بھی آگے پیچھے ہو رہے ہیں اس لیے ہمیں اس کے مطابق اپنی پالیسیاں اور نظام کو تبدیل کرنا چاہیے نہ کہ سو سال پرانے نظام پر چلنا چاہیے۔
بچوں کے سکول کے اوقات کار تبدیل ہونے کی بحث سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی چل رہی ہے۔
فیس بک پر ماؤں کے ایک گروپ ’سکیئری امی‘ پر بھی یہ بحث چل رہی ہے۔ اس گروپ میں بھی کچھ امیوں کا خیال ہے کہ چھٹیاں دسمبر کی بجائے جنوری میں ہونی چاہییں جب زیادہ ٹھنڈ پڑتی ہے اس طرح حکومت کو بھی بار بار مختلف فیصلے نہیں کرنے پڑیں گے۔
اس گروپ کی کچھ صارفین امیوں کے مطابق وہ حکومت کے فیصلے سے بہت خوش ہیں کیونکہ سردی بہت شدید ہے اور اکثر بچے جو وینز، سکول بسوں، رکشوں یا پیدل سکول جاتے ہیں ان کے لیے منہ اندھیرے، دھند میں سکول کے لیے گھر سے نکلنا انتہائی تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک صارفہ کا کہنا تھا کہ چھٹیاں اتنی لمبی ہوئیں کی بچوں کی روٹین ہی تبدیل ہو گئی اس لیے ساڑھے نو بجے کا وقت ٹھیک ہے کیونکہ اتنی ٹھنڈ میں بستر سے نکلنا ویسے بھی بچوں کے لیے کسی مصیبت سے کم نہیں ہوتا اور اس میں بچوں کے بیمار ہونے کے امکان بھی زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ انہیں سردی لگ سکتی ہے۔
سندس کہتی ہیں: ’میں خوش ہوں ساڑھے نو بجے والی سکول ٹائمنگ سے لیکن چونکہ سب سکولوں نے ساڑھے نو بجے لگنا تھا اس لیے بدھ کی صبح سڑکوں پر ٹریفک کے حالات انتہائی خراب تھے اور شدید ٹریفک جام دیکھنے کو ملا۔‘
لبنیٰ امیر جو ایک نجی سکول میں پڑھاتی ہیں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد بدھ کو سکول کی حاضری میں زیادہ کمی نہیں تھی لیکن یقیناً والدین کو بچوں کو اتنی دیر سے سکول چھوڑنے میں مسئلہ تو ہو رہا ہے۔
’میں خود اپنی ایک رشتے دار کے بچے کو اپنے ساتھ سکول لے کر گئی کیونکہ وہ دونوں میاں بیوی کام کرتے ہیں اور وہ بچوں سے پہلے دفتر جا چکے تھے۔‘
لبنیٰ امیر کا بطور استاد یہ خیال ہے کہ اگر سکول کی چھٹیاں دسمبر کے بجائے جنوری میں کر دی جائیں تو یقیناً سب اس افراتفری اور مختلف مسائل سے بچ سکتے ہیں۔
عروج جو کہ ایک ڈاکٹر بھی ہیں انہوں نے بتایا: ’میرے شوہر پہلے بچوں کو دفتر جاتے سکول چھوڑا کرتے تھے لیکن اب چونکہ انہیں دیر ہوجاتی اس لیے یہ ذمہ داری مجھ پر آئی جو کہ میرے کاموں میں ایک اور اضافہ ہے۔‘
محکمہ موسمیات کے مطابق اس مرتبہ پنجاب میں سردی فروری کے مہینے تک پڑے گی۔ چیف میٹرولوجسٹ چوہدری اسلم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کم از کم ایک اور ہفتے تک دھند کا سلسلہ چلے گا اور بارش کا کوئی امکان نہیں ہے۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ پاکستان میں جنوری کا مہینہ سرد ترین ہوتا ہے اور سردی دسمبر کے وسط سے زیادہ پڑتی ہے لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا اور سردی کی شدت نے جنوری کی آغاز سے ہی زور پکڑا ہے۔
چوہدری اسلم کے مطابق: ’اس مرتبہ پاکستان کے میدانی علاقوں خاص طور پر پنجاب میں سردی کی شدت فروری کے مہینے تک برقرار رہے گی جبکہ شمالی علاقہ جات میں مارچ تک سردی پڑنے کا امکان ہے لیکن زیادہ سردی جنوری کے مہینے میں ہی پڑے گی۔‘
چوہدری اسلم نے بتایا کہ کم سے کم درجہ حرارت پانچ ہے اور زیادہ سے زیادہ نو یا 10 تک جا رہا ہے۔ کم سے کم درجہ حرارت اور زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت کے درمیان فرق بہت کم ہے جس کی وجہ سے سردی کی شدت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔