متحدہ جنوبی پنجاب محاذ اور علیحدہ صوبے کا نعرہ کہاں گیا؟

آٹھ فروری 2024 کے عام انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں نے مہمات شروع کر دی ہیں لیکن ابھی تک کسی نے جنوبی پنجاب صوبے سے متعلق آواز نہیں اٹھائی۔

پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے  عام انتخابات 2024  کے لیے مہمات شروع کر دی ہیں، تاہم کسی پارٹی کی جانب سے ابھی تک جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا نعرہ سامنے نہیں آیا، جس پر اس خطے کے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔

گذشتہ کئی عام انتخابات میں یہی نعرہ لگا کر تمام بڑی جماعتیں نشستیں حاصل کرتی رہی ہیں۔

اس حوالے سے 2018 کے عام انتخابات کے موقعے پر باقاعدہ متحدہ جنوبی پنجاب محاذ کے نام سے اس خطے سے تعلق رکھنے والے سیاست دانوں نے تحریک انصاف سے اتحاد بھی کیا تھا، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آسکی ہے۔

تاہم فروری 2024 کے عام انتخابات سے قبل کسی بڑی سیاسی جماعت نے جنوبی پنجاب صوبے کے لیے آواز اٹھائی، نہ ہی کوئی وعدہ کیا۔

سرائیکی پارٹی کے رہنما ظہور دھریجہ نے اس بارے میں انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’وسیب کے لوگ دکھی ہیں، یہ آج علیحدہ صوبے کی بات بھی نہیں کر رہے کیونکہ ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی، ان سے جو کہلوایا جاتا ہے، وہی کہتے ہیں۔‘

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ’خسرو بختیار نے اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور متحدہ جنوبی پنجاب محاذ بنایا۔ جب ان کو اشارہ کیا گیا کہ اسے تحریک انصاف میں ضم کر دیں تو انہوں نے اس محاذ کو پی ٹی آئی میں ضم کر دیا۔‘

ظہور دھریجہ کے مطابق: ’اس اتحاد میں سب وڈیرے اور جاگیردار شامل تھے، جنہوں نے سیاسی مفاد کے لیے علیحدہ صوبے کے لیے عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ یہ سب تخت لاہور کے چوکیدار ہیں۔ انہوں نے ہمارے ساتھ دھوکہ کیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’پہلے مسلم لیگ ن نے دھوکہ دیا کہ علیحدہ صوبہ بنائیں گے، ووٹ لے کر دو تہائی اکثریت حاصل کی اور دو صوبے بنانے کا دعویٰ کیا لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کیا۔ اس خطے کے لوگ اپنا حق مانگ رہے ہیں، وفاق کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، کوئی علیحدہ ملک تو نہیں مانگ رہے۔‘

ظہور دھریجہ کے بقول: ’سرائیکیوں کا قتل کیا جا رہا ہے۔ وزیرستان میں مارے گئے، تربت میں قتل کیے گئے، شجاع آباد سے لاشیں آئیں۔ مظفر گڑھ سے جنازے آئے۔ ہم نے بہاول پور ریاست پاکستان میں ضم کی اور اربوں کے خزانے دیے۔ ہمیں کیا ملا؟‘

انہوں نے اپنے علاقے میں ووٹرز سے اپیل کی کہ جو امیدوار ووٹ مانگنے آئے اسے ان کے وعدے ضرور یاد دلائیں۔

سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے مصور جمیر ہاشمی، خواتین ایکٹویسٹ حمیرا طارق، سوشل ورکر کوثر پروین اور تاجر رہنما آغا ظہور کا بھی کہنا ہے کہ اس خطے کی محرومیوں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وسائل اس طرح نہیں پہنچتے جتنا حصہ بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہاں تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات بھی آبادی کی لحاظ سے موجود نہیں۔

جنوبی پنجاب صوبے کے قیام میں رکاوٹیں

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو تقسیم کر کے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کے معاملے پر دہائیوں سے سیاست کی جاتی رہی ہے اور ہر بار جنوبی پنجاب کے باسیوں کی محرومیوں کا حل علیحدہ صوبے کا قیام بتایا جاتا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب جنوبی پنجاب صوبے کی تحریک چلی تو بہاولپور کے لوگوں نے اپنی ریاست کی بحالی کا مطالبہ کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وزیراعظم بننے کے بعد یوسف رضا گیلانی پر اس خطے سے تعلق پر جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا بانی بننے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔

انہوں نے اس سلسلے میں سنجیدہ کوشش کی اور قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں قرارداد بھی پیش کی گئی۔ ساتھ ہی دعویٰ کیا گیا کہ بس اب الگ صوبہ بننے ہی والا ہے لیکن عملی طور پر کچھ نہ ہو سکا۔ اس معاملے کے موخر ہونے کا سبب مسلم لیگ ن کو بتایا گیا۔

تاہم ایک طرف ملتان کے لوگوں نے صوبے کا نام ’سرائیکستان‘ رکھنے کا مطالبہ کیا تو بہاولپور کے لوگوں نے صوبہ بہاولپور کی بحالی یا مشترکہ صوبے کا نام بہاولپور رکھنے کی شرط عائد کی۔

 2013 کے عام انتخابات میں جب مسلم لیگ ن اس خطے سے علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کر کے کامیاب ہوئی تو انہوں نے بھی حکومت ختم ہونے سے قبل پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں علیحدہ صوبے کے قیام کی قراردادیں جمع کروا دیں اور عملی اقدامات کے اعلانات کیے گئے لیکن وہ قراردادیں بھی ایوانوں کے ریکارڈ میں دب گئیں اور عملی طور پر کوئی انتظام نہ ہوا۔

دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الگ صوبہ بنانے کا وعدہ وفا نہ کرنے کے طعنے پر حکمران جماعت پی ٹی آئی نے یہ ذمہ داری اٹھائی اور 2018 کے عام انتخابات سے قبل پی ٹی آئی نے علیحدہ صوبے کے لیے بننے والے سیاسی دھڑے ’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘ سے باقاعدہ تحریری معاہدہ کیا کہ حکومت قائم ہونے کے 100 دن میں ہی یہ صوبہ بن جائے گا۔

اگرچہ 100 دن میں الگ صوبہ تو نہ بن سکا لیکن اب پونے دوسال بعد حکمران جماعت نے اچانک اعلان کیا ہے کہ انتظامی سیکریٹریٹ فوری طور پر بہاولپور میں بنا کر علیحدہ صوبے کی قرارداد پارلیمنٹ میں لائی جائی گی۔

تاہم اس بار بھی ملتان میں علیحدہ صوبے کے حامی بہاولپور کی بجائے ملتان میں سیکرٹریٹ قائم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ ملتان سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے بعض اراکینِ صوبائی اسمبلی نے اس پر تحفظات کا اظہار بھی کیا ہے۔

علیحدہ صوبے کے لیے قانون سازی اور علاقائی مزاحمت

آئینِ پاکستان کے مطابق کسی بھی صوبے کو تقسیم کر کے علیحدہ یونٹ قائم کرنے کے لیے قانون سازی لازمی ہے، جس کے طریقہ کار کے مطابق پارلیمنٹ میں اس قانون سازی کے حق میں اراکین کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو موجودہ حالت میں کسی حکومت کے لیے حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے۔

ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب آنے والی حکومت حزبِ اختلاف کو بھی اپنے ساتھ ملا لے۔

دوسری جانب جس صوبے کو تقسیم کرنا ہو، اس کی اسمبلی سے بھی یہ قرارداد دو تہائی اکثریت سے منظوری کے بعد بل پاس کروانا ضروری ہے۔ تحریکِ انصاف کی حکومت کو بھی ایسے ہی مسائل کا سامنا تھا اور آٹھ فروری 2024 کے انتخاب کے بعد جو بھی حکومت بنے گی، اسے بھی یہی مسئلہ درپیش رہے گا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست