فلسطینی گروپ حماس نے اتوار کو اسرائیل کے خلاف سات اکتوبر کے حملوں کا دفاع کرتے ہوئے غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے جسے اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے مسترد کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق حماس نے اکتوبر میں اسرائیل پر کیے گیے حملوں کے بارے میں اپنی پہلی عوامی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضے کے خلاف ایک ’ضروری قدم‘ اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا ایک طریقہ تھا۔
حماس کی 16 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ’کچھ نقائص وقوع پذیر ہوئے، جس کی وجہ اسرائیلی سکیورٹی اور فوجی نظام کی جلد ناکامی اور سرحدی علاقوں میں افراتفری تھی۔‘
بعد ازاں اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے ’مکمل فتح‘ کا عہد کیا اور کہا کہ ان کی حکومت غزہ میں موجود اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے حماس کی شرائط قبول نہیں کرے گی۔
اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر کو حماس کے حملے میں تقریباً 1،140 افراد مارے گئے تھے۔
ان حملوں کے دوران تقریباً 250 اسرائیلیوں کو قیدی بنا کر غزہ میں لے جایا گیا تھا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ ان میں سے غزہ میں اب بھی 132 افراد موجود ہیں اور جبکہ اسرائیلی جارحیت میں مرنے والے قیدیوں کی تعداد 28 ہو گئی ہے۔
حماس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اس کے جنگجو ’اسلامی اقدار‘ کے پابند ہیں اور اگر عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا تو ’یہ حادثاتی طور پر اور قابض افواج کے ساتھ تصادم کے دوران ہوا۔‘
بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کو فلسطینیوں کی مشکلات پر ’قانونی طور پر جوابدہ‘ ٹھہرایا جائے اور ’قبضے کے خاتمے تک دنیا بھر میں عوامی دباؤ‘ پر زور دیا گیا۔
حماس کی رپورٹ کے بعد جاری ہونے والے ایک ویڈیو بیان میں نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’ہمارے قیدیوں کی رہائی کے بدلے حماس جنگ کے خاتمے، غزہ سے ہماری افواج کے انخلا، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور اس بات کی ضمانت کا مطالبہ کرتی ہے کہ حماس اقتدار میں رہے گی۔‘
نتن یاہو کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم اسے قبول کرتے ہیں تو ہمارا فوجی نقصان رائیگاں جائے گا‘ اور سکیورٹی کی ضمانت نہیں ہو گی۔
اسرائیلی وزیراعظم کو قیدیوں کی واپسی اور سات اکتوبر کو ہوئی سکیورٹی کی ناکام پر شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
قیدیوں کے رشتہ داروں اور حامیوں نے اتوار کو مقبوضہ بیت المقدس میں نتن یاہو کی رہائش گاہ کے قریب ایک بار پھر ریلی نکالی ہے۔
دوسری جانب غزہ کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی جارحیت میں کم از کم 25 ہزار 105 افراد جان سے جا چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔
اقوام متحدہ کے اداروں نے قحط اور بیماری کے متعلق خبردار کیا ہے کیونکہ غزہ کے 17 لاکھ شہری بے گھر ہو چکے ہیں اور روزانہ بمباری کے دوران پانی، طبی دیکھ بھال اور دیگر ضروری اشیا کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں۔
فلسطینی شہری امور کے ذمہ دار اسرائیلی وزارت دفاع کے ادارے سی او جی اے ٹی کے مطابق اتوار کے روز 260 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جمعے کو اقوام متحدہ نے اطلاع دی تھی کہ 288 ٹرک داخل ہوئے ہیں، لیکن یہ اعداد و شمار جارحیت سے پہلے کی سطح سے بہت کم ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے خاتمے اور غزہ کو امداد کی فراہمی کے لیے بین الاقوامی سفارتی کوششوں جاری ہیں۔
امریکہ، عرب ممالک اور دیگر حکومتیں فلسطینی ریاست کے مسئلے کا مستقل حل تلاش کر رہی ہیں لیکن نتن یاہو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسرائیل کا غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھنا ضروری ہے۔‘
اس اسرائیلی جارحیت نے وسیع پیمانے پر کشیدگی میں اضافے کے خدشات کو جنم دیا ہے، لبنان کے ساتھ اسرائیل کی شمالی سرحد پر اسرائیلی افواج اور حزب اللہ کے درمیان تقریباً روزانہ فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے۔
عراق اور شام میں بھی مسلح گروہ امریکی فوجی اڈوں اور دیگر اہداف کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
یہ گروہ ان حملوں کو اسرائیل کے لیے امریکی حمایت کی مخالفت اور فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی قرار دیتے ہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔