نیا چیئرمین، نئی امیدیں، نئے چیلنجز

جس طرح ضروری نہیں کہ ایک کامیاب کرکٹر کامیاب کوچ بھی ہوسکے اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک کامیاب کرکٹر، بورڈ کا کامیاب سربراہ بھی بن سکے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور فی الوقت الیکشن کمشنر شاہ خاور سنبھالے ہوئے ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری بورڈ کے چیئرمین کا الیکشن کروانا ہے (پاکستان کرکٹ بورڈ)

انڈیا میں ہونے والے کرکٹ ورلڈ کپ کے دوران ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں انڈین کرکٹ کمنٹیٹر ہارشا بھوگلے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ کہتے نظر آئے کہ ’پیر، بدھ اور جمعہ کو نجم سیٹھی چیئرمین اور منگل جمعرات اور ہفتہ ذکا اشرف چیئرمین جبکہ اتوار کو یہ بحث ہوگی کہ اگلے ہفتے کیا ہونا چاہیے؟‘

یہ تحریر مصنف کی زبانی یہاں سنیے:

 

بظاہر یہ گفتگو نجم سیٹھی اور ذکا اشرف کے بارے میں تھی لیکن درحقیقت یہ پاکستان کرکٹ کے نظام پر بھرپور طنز تھا کیوں کہ حالیہ برسوں میں پاکستان کرکٹ بورڈ میں اتنی تیزی سے تبدیلیاں ہوئی ہیں کہ دنیا بھر میں اسے حیرانی سے دیکھا جاتا رہا ہے۔

ماضی میں یہ حیرانی کپتانوں کی تیزی سے ہونے والی تبدیلیوں کے بارے میں ہوا کرتی تھی جس کی ایک جھلک سابق آسٹریلوی کپتان ای این چیپل کے اس مشہور بیان میں بھی نظر آتی تھی کہ ’لوگ اتنی تیزی سے اپنی شرٹس تبدیل نہیں کرتے جتنی تیزی سے پاکستان میں کپتان تبدیل ہوتے ہیں۔‘

پچھلے 13 ماہ میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے چار سربراہ تبدیل ہو چکے ہیں جن میں احسان مانی، رمیز راجہ، نجم سیٹھی اور ذکا اشرف شامل ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور فی الوقت الیکشن کمشنر شاہ خاور سنبھالے ہوئے ہیں جن کی بنیادی ذمہ داری بورڈ کے چیئرمین کا انتخاب کروانا ہے۔

ملک میں عام انتخابات کے بعد ’محسن نقوی پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کا عہدہ‘ سنبھالیں گے۔ وہ اس وقت پنجاب کے نگراں وزیراعلیٰ ہیں اور انہیں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ذکا اشرف کی جگہ پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز میں نامزد کیا ہے۔

ان کے علاوہ بورڈ آف گورنرز میں حکومت کے دوسرے نمائندے مصطفیٰ رمدے ہیں۔

کئی ذہنوں میں یقیناً یہ سوال موجود ہوگا کہ نگراں وزیراعظم کی جانب سے محسن نقوی کی پی سی بی کے بورڈ آف گورنرز میں نامزدگی اپنی جگہ لیکن کیا وہ ملک میں عام انتخابات کے بعد برسراقتدار آنے والی حکومت کے لیے بھی بطور پی سی بی چیرمین قابل قبول ہوں گے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں جب بھی حکومتی تبدیلی عمل میں آئی ہے اس کا براہ راست اثر پاکستان کرکٹ بورڈ پر پڑا ہے اور ہر حکومت نے اپنی پسند کے فرد کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا ہے۔

دراصل پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کی تقرری کا استحقاق وزیراعظم کے پاس ہوتا ہے جو بورڈ کے پیٹرن ہیں لہذا بورڈ کا چیئرمین وہی بنتا ہے جو وزیراعظم یا برسر اقتدار پارٹی کا پسندیدہ ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر نواز شریف کے سابقہ ادوار میں سینیٹر سیف الرحمن کے بھائی مجیب الرحمن اور خالد محمود بورڈ کے چیئرمین رہے ہیں۔

جس زمانے میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے پیٹرن صدر مملکت ہوا کرتے تھے تو جنرل پرویز مشرف کے دور میں لیفٹیننٹ جنرل توقیر ضیا اور ڈاکٹر نسیم اشرف چیئرمین بنے۔

پیپلز پارٹی کے سابق ادوار اقتدار میں اس عہدے پر ذوالفقار علی شاہ بخاری اور اعجاز بٹ فائز رہے۔ اسی طرح جب عمران خان اقتدار میں آئے تو انہوں نے پہلے احسان مانی اور پھر رمیز راجہ کو بورڈ کا چیئرمین بنا دیا۔

تاہم اس مرتبہ صورت حال ماضی سے مختلف نظر آتی ہے۔

نگراں وزیراعظم نے جس اعتماد اور وثوق سے محسن نقوی کو بورڈ آف گورنرز میں اپنا نمائندہ نامزد کیا ہے وہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ عام انتخابات کے بعد جو بھی حکومت بنے گی وہ نگراں حکومت کے اس فیصلے کو تبدیل نہیں کرے گی۔

یہاں ذکا اشرف کے دور کا بھی ذکر ہو جائے جو پیپلز پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے پاکستان کرکٹ بورڈ میں آئے۔

اپنے پہلے دور میں انہوں نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے مطابق خود کو چیئرمین منتخب کروا لیا تھا کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ  2013 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف کی حکومت کے آنے سے وہ چیئرمین کے عہدے سے ہٹا دیے جائیں گے۔

یہ وہ دور ہے جب ذکا اشرف اور نجم سیٹھی کے درمیان پی سی بی کے چیئرمین بننے کا معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چلتا رہا۔ ایک عدالت کسی ایک کو عہدے پر بحال کرتی تو دوسری عدالت اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیتی۔

اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کی کرکٹ کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی تھی۔

ذکا اشرف کا حالیہ دور اس لحاظ سے خاصہ ہنگامہ خیز اور متنازع رہا کہ وہ چار ماہ کے لیے منیجمنٹ کمیٹی کے چیئرمین بنائے گئے تھے جس میں ان کی سب سے بڑی ذمہ داری انتخاب کروا کر چیئرمین منتخب کروانا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس مدت میں تین ماہ کی توسیع بھی ہوئی لیکن وہ چیئرمین کے الیکشن نہ کروا سکے اور ان کی چیئرمین بننے کی خواہش دل ہی میں رہ گئی کیونکہ اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کا گریجویٹ نہ ہونا تھا جو پی سی بی کا چیئرمین بننے کے لیے اولین شرط ہے۔

ذکا اشرف کی پچھلے دور کی طرح اس بار بھی پاکستان کرکٹ بورڈ میں آمد سیاسی تھی حالانکہ وہ جب پی سی بی میں آئے تو اس وقت شہباز شریف کی حکومت تھی لیکن پیپلز پارٹی کو اچانک یہ بات یاد آگئی تھی کہ پی ڈی ایم حکومت نے یہ طے کیا تھا کہ جس اتحادی جماعت کی وزارت ہوگی وہاں اہم عہدوں پر اسی جماعت کو تقرری کا حق ہوگا لہذا بین الصوبائی رابطے کی وزارت چونکہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے لہذا وہ پاکستان کرکٹ بورڈ میں اپنا بندہ لائے گی۔

اس وقت بین الصوبائی رابطے کے وزیر احسان مزاری تھیں جنہوں نے آن ریکارڈ یہ کہا تھا کہ ’ذکا اشرف پی سی بی کے چیئرمین ہوں گے۔‘

اس وقت اگرچہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور نجم سیٹھی کے پاس تھی لیکن شہباز شریف کے لیے ممکن نہ رہا کہ وہ آصف زرداری کو ناراض کرسکیں اور یوں نجم سیٹھی کو جانا پڑا لیکن شہباز شریف کی حکومت کے جاتے ہی ذکا اشرف کو اسی بین الصوبائی رابطے کی وزارت کی طرف سے ٹف ٹائم ملنا شروع ہو گیا اور بار بار یہ یاد دلایا جاتا رہا کہ وہ پی سی بی کے الیکشن کروائیں۔

ذکا اشرف کا یہ دور شہ سرخیوں میں رہا۔ ورلڈ کپ سے قبل ان کا یہ بیان اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا کہ ’ہم اپنی ٹیم کو دشمن ملک میں کھیلنے کے لیے بھیج رہے ہیں۔‘

ورلڈ کپ کے بعد انہوں نے کچھ بڑے فیصلے کیے جن میں کپتان اور ٹیم منیجمنٹ کی تبدیلی اور سلیکٹرز کی تقرری قابل ذکر تھی۔ حالانکہ حکومت کی طرف سے انہیں صرف روز مرہ کے معاملات چلانے کی اجازت تھی۔

ہمارے یہاں یہ بحث بھی بڑی پرانی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے کیا کرکٹر ہونا ضروری ہے؟ کیا نان کرکٹر اس عہدے سے انصاف کرسکتا ہے؟

اگر ان سوالات کے پس منظر میں حالات کا جائزہ لیں تو پاکستان کرکٹ بورڈ کرکٹرز اور نان کرکٹرز دونوں کے تجربات سے گزر چکا ہے۔

عبدالحفیظ کاردار، جاوید برکی، اعجاز بٹ اور رمیز راجہ ٹیسٹ کرکٹرز رہے ہیں جنہوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ کی باگ ڈور سنبھالی۔ دوسری جانب چیئرمین بننے والے نان کرکٹرز کی فہرست طویل ہے جن میں بیوروکریٹس، جج، فوجی اور بزنس مین شامل ہیں۔

جس طرح ضروری نہیں کہ ایک کامیاب کرکٹر کامیاب کوچ بھی ہوسکے اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ایک کامیاب کرکٹر بورڈ کا کامیاب سربراہ بھی بن سکے۔

یہ عہدہ کرکٹ سے مکمل واقفیت نہ سہی تاہم کسی حد تک اس سے واقفیت کا ضرور تقاضا کرتا ہے۔ سب سے اہم بات مین منیجمنٹ اور ادارے کو کامیابی سے چلانے کی انتظامی صلاحیت کا ہونا بہت ضروری ہے۔

اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ادارے کے مختلف شعبوں میں ایسے کن لوگوں کی ضرورت ہے جو میرٹ پر پورے اترتے ہیں  اور صحیح طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکتے ہیں۔ وہ ہر ایک کی کارکردگی پر مکمل نظر رکھتا ہو، اس میں مشیروں پر مکمل انحصار نہ کرتے ہوئے خود درست اور جرات مندانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔

اس ضمن میں ہمارے سامنے سب سے بڑی مثال ائر مارشل نور خان کی موجود ہے جو نہ سابق ٹیسٹ کرکٹر تھے نہ ہی سابق ہاکی اولمپیئن اور نہ ہی برٹش اوپن سکواش چیمپیئن۔ لیکن اس کے باوجود وہ انتہائی کامیاب اور تجربہ کار ایڈمنسٹریٹر کے طور پر دنیا بھر میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں۔

انہوں نے کرکٹ، ہاکی اور سکواش کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اتنی ہی شاندار کارکردگی دکھائی جتنی پی آئی اے اور پاکستان ائر فورس کے سربراہ کی حیثیت سے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نور خان کے پاس ایک وژن موجود تھا جسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے انہیں اپنے ساتھ کام کرنے والوں سے مطلوبہ نتائج لینا آتا تھا۔

ان کے ساتھ کام کرنے والے لوگ بھی اپنے اپنے شعبوں میں تجربہ کار تھے اسی لیے عمر قریشی، عارف عباسی، بریگیڈیر عاطف اور حسیب احسن کو لوگ آج بھی یاد رکھتے ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر