انتخابی عمل میں خواتین اساتذہ اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کرتی ہیں؟

پنجاب ٹیچرز یونین کے سیکرٹری رانا لیاقت کے مطابق عام انتخابات 2024 کے لیے صرف پنجاب میں کم سے کم سوا دو لاکھ اساتذہ انتخابی عمل کا حصہ ہوں گے۔

خواتین پر مشتمل انتخابی عملہ 18 فروری 2008 کو کوئٹہ کے ایک پولنگ سٹیشن پر ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی کر رہا ہے (اے ایف پی / بنارس خان)

پاکستان میں عام انتخابات 2024 کی تیاریاں اپنے حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں جن کے سلسلے میں سرکاری ملازمین کو بھی ان انتخابات کو بہترین انداز میں منعقد کروانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔

انتخابی عملے میں سرکاری تعلیمی اداروں سے تعلق رکھنے والے اساتذہ بھی شامل ہیں جن میں ایک بڑی تعداد خواتین اساتذہ کی ہے۔

 انتخابی عمل کو پولنگ سٹیشنز میں بہتر انداز میں ممکن بنانے کے لیے الیکشن کمشن آف پاکستان کی جانب سے اساتذہ کے تربیتی کورسسز کا سلسلہ جاری ہے۔

صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب اعجازانور چوہان نے بھی انتخابی عملے کی الیکشن ٹریننگ کے دوران غیر حاضری پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے صوبہ پنجاب کے تمام ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسران کو سختی سے ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹریننگ سے غیر حاضر عملے کے خلاف فوری اور سخت تادیبی کارروائی کی جاَئے اور پنجاب میں جاری پولنگ عملے کی تربیت کی حاضری کو 100فیصد یقینی بنایا جائے۔‘

اس سلسلے میں صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب کی طرف سے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھی مراسلہ جاری کیا گیا۔

چاند شکیل بطور لیکچرار گورنمنٹ گریجویٹ کالج سمندری فیصل آباد میں کام کرتے ہیں۔

چاند نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ چند روز قبل انہوں نے بطور پریزائیڈنگ افسر الیکشن کمشن کی طرف سے کروائی جانے والی ٹریننگ حاصل کی ہے۔

’ہماری تربیت کروانے والے ٹریننگ سکول ڈیپارٹمنٹ کے اساتذہ تھے جو بہت سینئیر تھے اور انہوں نے اچھا گائیڈ کیا۔‘

چاند کا کہنا تھا کہ الیکشن کمشن کا اچھا تعاون رہا ’ہمیں سہولت یہ تھی کہ ہماری تربیت ہمارے ہی کالج میں ہو رہی تھی اس لیے ہمارے لیے آسانی رہی البتہ ہمارے ہی کچھ ساتھی جن کا تعلق دیگر اضلاع سے ہے ان کی انتخاب کے دن ڈیوٹیاں دور دراز علاقوں میں لگی ہیں۔‘

دوسری جانب پنجاب ٹیچرز یونین کے سیکرٹری رانا لیاقت نے صوبے بھر میں عام انتخابات 2024 کے لیے جاری تربیتی کورسسز میں اساتذہ کی شمولیت کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’صوبے بھر میں اساتذہ کی تربیت جاری ہے اور اس عمل میں پنجاب کے سرکاری سکولوں کے تین لاکھ سے زائد اساتذہ میں سے کم سے کم سوا دو لاکھ اساتذہ اس انتخابی عمل میں اتخابی عملے کا حصہ بنے ہیں۔‘

رانا لیاقت کا کہنا تھا کہ ’عام انتخابات اور مردم شماری میں ہماری ڈیوٹی لگنا لازمی ہے اسے ’نیشنل ڈیوٹی‘ کہا جاتا ہے اور ہم اس سے انکار نہیں کر سکتے۔‘

الیکشن کمشن آف پنجاب کی ترجمان ہدیٰ علی شاہ نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ ’الیکشن ایکٹ کے تحت اور آئینی لحاظ سے بھی الیکشن کمشن کے پاس یہ اختیار ہے کہ مختلف حکومتی ادارے انتخابی عمل پورا کرنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

’انتخابات چونکہ ایک بہت بڑی سرگرمی ہے اور اس میں بہت زیادہ انسانی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور اساتذہ ہمارے پاس موجود ایک بہت بڑا ہیومن ریسورس کا پول ہیں جو ہر جگہ ہر علاقے میں موجود ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سکول ایجو کیشن، پرائمری ایجوکیشن، سیکنڈری ایجوکیشن کے اساتذہ اور پروفیسرز کی ان کے گریڈ کے تحت تعیناتی ہوتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مختلف شعبوں کے ملازمین ہوتے ہیں جو پولنگ عملے کے طور پر لگائے جاتے۔‘

ہدیٰ نے بتایا کہ ’الیکشن کمشن متعلقہ شعبوں اور اداروں سے پولنگ سٹاف بھرتی کرنے کے لیے ایک فہرست منگواتا ہے اور اس فہرست میں صرف وہ لوگ شامل ہوتے ہیں جن کا ٹریک ریکارڈ بالکل صاف ہو۔‘

انتخاب عملے کی تربیت اور انتخابات کا دن کیسا ہوتا ہے؟

پنجاب ٹیچرز یونین کے سیکرٹری جنرل رانا لیاقت نے بتایا کہ ’انتخابات کے لیے الیکشن کمشن کی جانب سے کروائی جانے والی ایک دن کی تربیت، ایک دن سامان جس میں بیلٹ باکس، سیٹشنری، ووٹرز کی فہرستیں، مہریں وغیرہ لینے جانا پڑتا ہے اور پھر انتخاب کا دن ہوتا ہے اور اس دن کے بعد سامان واپس جمع کروانا ہوتا ہے تقریباً تین سے چار دن اس سارے عمل میں ہم اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’انتخابات میں اساتذہ کو جو ڈیوٹیاں دی جاتی ہیں ان میں پریزائیڈنگ آفیسرکی ڈیوٹی، اس ڈیوٹی کے لیے وہ اساتذہ یا لیکچرارجو گریڈ 17 یا اس سے اوپر کے ہوں انہیں چنا جاتا ہے۔

’پریزائڈنگ افسر کے نیچے ایک سینیئر پریزائیڈنگ افسر ہوتا ہے، اس سے نیچے اسسٹنٹ پریزائیڈنگ افسر، پھر پولنگ افسر ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’ان کا کام ووٹر کا شناختی کارڈ لے کر ان کا ووٹر لسٹ میں اندراج چیک کرنا، بیلٹ پیپر کا اندراج کر کے بیلٹ پیپر اور مہر ووٹر کو دینا، بیلٹ باکس کی نگرانی کرنا ہے۔

اس کے بعد ووٹوں کی گنتی کرنا اور رزلٹ شیٹس کے فارم 45 اور فارم 46 کو حلقے کے ریٹرننگ افسر کو واپس دینا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس سارے عمل میں ہمارے لیے کافی مسائل آتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ ہمیں تربیتی پروگرام سے دو چار دن پہلے آگاہ کیا جائے، ہمیں ایک دن پہلے معلوم ہوتا ہے کہ صبح آپ کی فلاں جگہ تربیت ہے۔‘

رانا لیاقت نے بتایا کہ ’ان ٹریننگز کے دوران بہت سے اساتذہ کو نوکری سے معطل بھی کیا گیا کیونکہ وہ ٹریننگ کے لیے پہنچ نہیں پائے تھے۔

'دراصل الیکشن کمشن کی طرف سے ناموں کی ایک فہرست جاری ہوتی ہے جس میں تین سے پانچ ہزار نام درج ہوتے پہیں بعض اوقات جب لوگ اس فہرست میں اپنا نام تلاش کرتے ہیں تو انہیں اتنے ناموں میں اپنا نام دکھائی نہیں دیتا جس کی وجہ سے انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی ٹریننگ ہے۔‘

رانا لیاقت کے مطابق: ’ہونا یہ چاہیے کہ تربیت لینے کے لیے جو بھی منتخب ہوا ہے اسے اسے فون پر ایک پیغام چلا جائے کہ ان کا تربیتی کورس فلاں دن فلاں جگہ پر ہو گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’الیکشن کمشن کے پاس سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کی جو تفصیلی فہرسیں آتی ہیں ان میں ملازمین کی تمام تر تفصیلات موجود ہوتی ہیں۔

’میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو ٹریننگ ہر انتخاب سے پہلے پولنگ عملے کو کروائی جاتی ہے اس پر حکومت کی ایک خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔ آج کل ڈیجیٹل دور ہے تو بجائے تربیتی کورس کروانے کے حکومت کو چاہیے کہ وہ تربیت کا سارا مواد ڈیجیٹلی لوگوں کو بھیج دیں تو وہ زیادہ بہتر ہو گا اور حکومت کا پیسہ بھی بچے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اگر ٹریننگ کروانی بھی ہے تو صرف پریذائیڈںگ افسران کی کروائی جائے جنہوں نے پولنگ سٹیشن کو چلانا ہوتا ہے اور ان سے نیچے لوگوں کو اگر پرنٹڈ یا ڈیجیٹل مواد دے دیا جائے توبھی وہ اپنا کام چلا سکتے ہیں۔‘

رانا لیاقت جو خود پانچ مرتبہ صوبائی و قومی اسمبلی کے حلقوں میں بطورپریزائیڈنگ افسر خدمات انجام دے چکے ہیں نے بتایا کہ ’ٹریننگ سینٹرز مختلف کالجوں کی کلاس رومزمیں بنائے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ٹریننگ سینٹرز دور بھی بہت ہوتے ہیں۔ اگر لاہور میں ایک ٹریننگ سینٹر بنا ہے تو وہاں مانگا منڈی سے بھی لوگ آ رہے ہیں اور دیگر دور دراز کے علاقوں سے بھی۔

’ہونا یہ چاہیے کہ ان کی تربیت کا بندوبست ان کے حلقوں میں کیا جائے جہاں ان کی ڈیوٹیاں لگنی ہیں تاکہ تربیت لینے والے اس ماحول سے بھی مانوس ہو جائیں۔‘

پولنگ عملے کی ڈیوٹیاں

رانا لیاقت نے بتایا کہ ’انتخاب سے ایک دن پہلے ٹریننگ لینے والے پریزائیڈنگ افسر کو الیکشن کمشن کے دفتر سے بیلٹ باکسسز بھی اٹھا کر پولنگ سٹیشن تک لے کر جانے پڑتے ہیں۔

’ریٹرننگ افسر کے دفتر سے لے کر پولنگ سٹیشن تک لے کر جانا بھی پریززائیڈنگ آفیسر کے لیے ایک مشکل اور کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ خاص طور پر خواتین کے لیے کیونکہ انہوں نے متعدد باکسسز اٹھائے ہوتے ہیں اور انہیں لے جانے کے لیے رکشہ ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ یہ سامان ہمیں پولنگ سٹیشنز پر مہیا کیا جانا چاہیے۔ حکومت اپنی نگرانی میں سکیورٹی کاانتظام کر کے جس پولنگ سٹیشن کا سامان ہے وہاں پہنچائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سامان پولنگ سٹیشن پر لانے کے بعد واپس ریٹرننگ افسر کے دفتر لے کر جانا بھی ہمارا ہی کام ہوتا ہے۔‘

 ’بعض پولنگ سٹیشنز ایسے ہوتے ہیں جہاں پولنگ ختم ہونے کے بعد گنتی کا عمل مکمل کر کے آٹھ بجے تک رزلٹ دے دیا جاتا ہے جس کے بعد عملے نے سامان واپس لے کر ریٹرننگ افسر کے دفتر جانا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان کے وہاں پہنچنے تک مزید مختلف پولنگ سٹیشنوں سے عملہ وہاں پہنچا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہاں لمبی قطاریں بن جاتی ہیں اور وقت لگ جاتا ہے اور بعض اوقات لوگوں کو سامان واپس جمع کرواتے کرواتے صبح کے آٹھ نو بج جاتے ہیں۔ ہمارے ذمہ صرف بیلٹ پیپر واپس جمع کروانے کا کام ہو نا چاہیے۔‘

خواتین اساتذہ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’خواتین کو اس سارے انتخابی عمل میں مسائل مردوں سے زیادہ ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے تو انہیں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہوتا ہے۔

’اگر ان کی ڈیوٹی گھروں سے 20 یا 40 کلو میٹر دور لگ جائے توپولنگ کے لمبے عمل کے انہیں رات پولنگ سٹیشن پر رکنا پڑتا ہے جو ان کے لیے مسئلہ بنتا ہے اور اگر انہیں علی الصبح پولنگ سٹیشن پہنچنا پڑے تب بھی ان کے لیے مسئلہ ہوتا ہے۔

’ایسی خواتین کی ڈیوٹیاں نہیں لگانی چاہیے جو ڈیوٹی نہیں کرنا چاہتی ان کی جگہ نجی شعبوں سے ملازمین کو لے لینا چاہیے۔‘

پولنگ سٹاف میں شامل اساتذہ کو معاوضہ کیا دیا جاتا ہے؟

رانالیاقت نے بتایا کہ ’انتخابی عمل میں ہماری ٹریننگ سے لے کر انتخاب کروا دینے تک کا معاوضہ انتخاب ختم ہونے کے بعد ہمیں دیا جاتا ہے۔

’اس وقت پولنگ افسر کو ٹریننگ سے لے کر انتخاب ختم ہونے کے اس عمل میں حصہ لینے کے بعد 45 سو روپے۔ اسسٹنٹ پریذائڈنگ افسر کوتقریبا ساڑھے چھ ہزار روپے، پریذائیڈنگ افسر کو 11 ہزار اور کلاس فور کے ملازمین کو دو ہزار روپے دیے جاتے ہیں۔‘

کیا حساس حلقوں میں پولنگ عملہ محفوظ ہوتا ہے؟

حساس حلقوں کی سکیورٹی کے حوالے سے رانا لیاقت نے بتایا: ’اب تک میں نے جتنی بھی صوبائی اور قومی اسمبی کے حلقوٓں میں ڈٰیو ٹیاں کی ہیں ان میں ہمارے ساتھ فوج کے جوان تعینات ہوتے ہیں جس سے ہمیں کافی تحفظ ہوتا ہے لیکن اگر صرف پولیس ہو تو پھر سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات مسائل پیدا کر بھی دیے جاتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دفتر