اگرچہ 1970 کے انتخابات کا نتیجہ پاکستان کی تقسیم کی صورت میں نکلا لیکن آج تک کسی نے ان الیکشنز کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھایا اور عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات تھے۔
اس کے بعد سے آج تک پاکستان میں 11 انتخابات ہو چکے ہیں مگر ان میں سے ہر چناؤ کے بارے میں مخالف سیاسی جماعتیں یہ الزام لگاتی آئی ہیں کہ ان میں کسی نہ کسی سطح پر دھاندلی ہوئی ہے۔
1970کے انتخابات کس ماحول میں ہوئے تھے اور ان کے نتائج نے کیسے پاکستان کو دو لخت کیا؟
یہ موضوع نیا نہیں ہے تاہم موجودہ انتخابی ماحول میں اس کا جائزہ لینا اس لیے بھی ضروری ہے کہ ایک سیاسی جماعت کا خیال ہے کہ اسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔
کیا شیخ مجیب الرحمٰن اور عمران خان میں کچھ مماثلت ہو سکتی ہے اور کیا عوامی لیگ یا پاکستان تحریک انصاف میں بھی کچھ مشترکات ہیں؟ اور اشرافیہ کیوں چاہتی ہے کہ وہ انتخابی ماحول پر اپنی گرفت رکھے؟
ایک فرد ایک ووٹ کی بنیاد پر پہلے عام انتخابات
جنرل ایوب کے استعفے کے بعد اقتدار جب یحییٰ خان نے سنبھالا تو انہوں نے مارشل لا نافذ کر دیا۔
آٹھ ماہ بعد 28 نومبر 1969 کو قوم سے خطاب میں انہوں نے ایک لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا جس کے تحت ون یونٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار ’ایک فرد، ایک ووٹ‘ کی بنیاد پر پانچ اکتوبر 1970 کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔
انہوں نے کہا کہ نئی قومی اسمبلی کی بنیادی ذمہ داری یہ ہو گی کہ وہ 120 دن کے اندر نیا آئین تشکیل دے اور اگر اسمبلی ایسا کرنے میں ناکام ہوئی تو اسے تحلیل کر کے نئی اسمبلی منتخب کی جائے گی۔
مجوزہ آئین کے خدوخال کی جانب انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ صوبائی خودمختاری کے ساتھ ایک مضبوط فیڈریشن کا بھی آئینہ دار ہو گا۔ یکم جنوری سے سیاسی سرگرمیوں کی مشروط اجازت دیتے ہوئے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو پاکستان کے نظریے، سالمیت اور بقا کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
دولت اور جبر سے انتخابات پر اثر اندازی کو روکا جائے گا۔ آزادیِ صحافت کی ضمانت دی جائے گی اور کسی صورت میں عام انتخابات کے انعقاد میں رخنہ اندازی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
یحییٰ خان کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت قومی اسمبلی 313 راکین پر مشتمل ہو گی جن میں سے 300 عام نشستیں اور 13 خواتین کے لیے مختص ہوں گی۔ ان میں سے مشرقی پاکستان کے لیے 162 عام نشستیں اور سات خواتین کے لیے مختص کی گئیں۔
پنجاب کو 82 عام نشستیں اور تین خواتین کے لیے، سندھ کو 27 اور ایک خاتون کے لیے، سرحد کو 18 عام اور ایک خاتون کے لیے، بلوچستان کو چار عام اور ایک خاتون کے لیے جبکہ قبائلی علاقوں کو سات عام نشستیں دی گئیں۔
1970 کا انتخابی ماحول اور نتائج
حزب اختلاف کی جماعتوں کا خیال تھا کہ صدر ایوب نے ستمبر1965 کی جنگ مذاکرات کی میز پر ہار دی ہے ا س لیے ان کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی جائے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ایک سبجیکٹ کمیٹی قائم کی جس کا مقصد حزب اختلاف کے لیے مشترکہ ایجنڈا بنانا تھا۔
اس کانفرنس میں عوامی لیگ کے شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی جانب سے چھ نکات پیش کیے جنہیں حزب اختلاف کی جماعتوں نے رد کر دیا۔
اس پر انہوں نے پانچ فروری 1966 کو لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان چھ نکات کا اعلان کیا۔ ان چھ نکات کو انہوں نے انتخابی مہم میں تو استعمال نہیں کیا مگر جب حکومت سازی کا مرحلہ آیا تو انہوں نے کہا کہ عوام نے انہیں جو مینڈیٹ دیا ہے وہ ان چھ نکات پر دیا ہے۔
مجیب الرحمٰن کے چھ نکات
ان چھ نکات میں سے کچھ پاکستان کی سالمیت کے خلاف تھے مثال کے طور پر وفاقی حکومت کا تعلق صرف دفاع اور امور خارجہ سے ہونا چاہیے، دونوں حصوں کے الگ الگ مالیاتی نظام ہوں اور اگر ایک رکھنا بھی ہو تو یہ یقین دہانی کرائی جائے کہ ایک حصے کا سرمایہ دوسرے حصے میں منتقل نہ ہو سکے گا۔
ریاستوں کو نیم فوجی یا علاقائی فوجی دستے قائم کرنے کی اجازت ہونا چاہیے۔
یہ نکات ایسے تھے جس پر عمل کرنے کے بعد پاکستان کا وفاق برائے نام رہ جاتا۔
جب یکم جنوری کو انتخابی مہم شروع ہوئی تو 24 سیاسی جماعتیں میدان میں اتریں لیکن حیران کن طور پر مغربی پاکستان میں بھٹو اور مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔
شیخ مجیب کو مغربی پاکستان کے تمام حلقوں میں صرف سات امیدوار ملے جب کہ بھٹو کو مشرقی پاکستان میں ایک امیدوار بھی نہیں مل سکا۔
بھٹو کی انتخابی مہم سوشلسٹ اصلاحات، امریکہ مخالفت اور چین دوستی کے گرد گھومتی تھی جبکہ شیخ مجیب کا سارا زور مغربی پاکستان کو استحصالی ثابت کرنے پر تھا۔
شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کی رائے عامہ کو اس حد تک یک طرفہ کر دیا کہ ڈھاکہ میں کونسل مسلم لیگ اور جماعت اسلامی کے جلسوں پر دھاوا بول کر ان کے کارکنوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
اس ماحول میں ہونے والے انتخابات کے نتائج بھی توقع کے بالکل خلاف نہ تھے۔
شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں 162 میں سے 151 نشستیں جیت لیں۔ باقی 10 نشستوں پر طوفان میں تباہی کی وجہ سے انتخابات ملتوی کیے گئے تھے۔ بعد میں جب ان نشستوں پر انتخابات ہوئے تو ان میں سے بھی نو شیخ مجیب کے حصے میں آئیں۔
مغربی پاکستان میں بھٹو کو 138 عام نشستوں میں سے 81 مل سکیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات کے بعد جب 17 دسمبر کو صوبائی اسمبلیوں کے لیے ووٹ ڈالے گئے تو اس میں بھی شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے کلین سویپ کیا اور مشرقی پاکستان کی صوبائی اسمبلی کے لیے مختص 279 میں سے 266 نشستیں جیتیں۔
منقسم مینڈیٹ کے بعد سیاسی بحران
انتخابی نتائج میں اگرچہ عوامی لیگ بڑی جماعت بن کر ابھری تھی تاہم اصل مسئلہ یہ پیدا ہو گیا کہ شیخ مجیب اور بھٹو دونوں میں سے کوئی رہنما ایسا نہیں تھا جو دونوں جانب کا مینڈیٹ رکھتا ہو، اس لیے حکومت سازی میں تعطل پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔
شیخ مجیب جلد از جلد قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرانا چاہتے تھے جبکہ بھٹو اجلاس سے پہلے یہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے تھے کہ چھ نکات میں سے وہ نکات جن کا تعلق پاکستان کے وفاق کو برائے نام بنانے سے ہے ان کے بارے میں شیخ مجیب اپنا مؤقف واضح کریں۔
لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ شیخ مجیب کا انداز سخت ہوتا گیا اور انہوں نے واضح کر دیا کہ پاکستان کا نیا آئین ان چھ نکات کی روشنی ہی میں بنایا جائے گا کیونکہ اس کا مینڈیٹ عوام نے دیا ہے۔
انہوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عوامی لیگ کی پارلیمانی کمیٹی نے 27 فروری 1971 کو جس مجوزہ آئینی مسودے کی منظوری دی، چھ نکات اس میں شامل تھے۔
اس مسودے کے نمایاں خدوخال میں مشرقی پاکستان کا نام بنگلہ دیش اور سرحد کا پشتونستان تجویز کرنا، امورِ خارجہ اور دفاع مرکز کو دیتے ہوئے دونوں حصوں کے لیے الگ الگ مالیاتی ڈھانچہ تجویز کرنا اور مرکز سے محاصل کی وصولی کا اختیار بھی لینے کا عندیے شامل تھے۔
اس کی وجہ سے تناؤ بڑھ گیا اور بھٹو نے اعلان کر دیا کہ ان کی پارٹی کا جو لیڈر یکم مارچ کو ڈھاکہ میں ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرے گا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔
جنرل یحییٰ نے دباؤ میں آ کر قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیا، جس کے نتیجے میں ڈھاکہ میں یکم سے تین مارچ کے دوران جلاؤ گھیراؤ شروع ہوا، جس پر کرفیو نافذ کر دیا گیا۔ شیخ مجیب نے سول نافرمانی کا اعلان کر دیا اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔
کیا شفاف انتخابات کی وجہ سے ملک ٹوٹا؟
ستر کے انتخابات کے بارے میں ایک رائے اکثر مبصرین دیتے ہیں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کے شفاف ترین انتخابات تھے۔ لیکن مسئلہ شاید انتخابات کے شفاف ہونے میں نہیں تھا بلکہ ایک فرد ایک ووٹ میں تھا جس میں مشرقی پاکستان کی آبادی زیادہ تھی۔
اس سے پہلے صدر ایوب نے صدارتی انتخابات میں براہ راست ووٹ حاصل نہیں کیے تھے بلکہ انہوں نے بی ڈی اراکین کے ذریعے 95.6 فیصد ووٹ حاصل کر کے خود کو منتخب صدر قرار دیا تھا۔
مشرقی پاکستان کی قیادت شروع سے ہی سمجھتی تھی کہ اس نظام کے وجہ سے ان کا معاشی اور سیاسی استحصال کیا جا رہا ہے اس لیے جب صدر یحییٰ نے ون یونٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک فرد ایک ووٹ کا طریقہ اپنایا تو اس طرح جو نتائج نکلے وہ توقع کے خلاف تھے۔
ممتاز ماہر قانون حامد خان اپنی کتاب Constitutional and Political History of Pakistan میں لکھتے ہیں کہ ’1955 میں غیر مقبول گورنر جنرل کی جانب سے ون یونٹ کی تشکیل کے خلاف بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن اسے دوسری دستور ساز اسمبلی نے آئینی اقدام کے طور پر لیا اور 1956 کے آئین پاکستان کا حصہ بنایا جسے کسی صورت جنرل یحییٰ خان، جن کا کردار عبوری تھا، ختم نہیں کر سکتے تھے۔‘
ڈاکٹر رسول بخش رئیس جو کہ ممتاز ماہرسیاسیات ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 70 کے انتخابی نتائج شفاف ترین تھے مگر یہ کہنا کہ اشرافیہ کی توقع کے مطابق تھے شاید ایسا نہیں ہے۔
جنرل یحییٰ کو بتایا گیا تھا کہ کوئی بھی جماعت اکثریت حاصل نہیں کر سکے گی اس لیے منقسم مینڈیٹ کی وجہ سے یحییٰ خان کے اقتدار کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب مقبول تو تھے لیکن کلین سویپ کا کسی کو اندازہ نہیں تھا۔
ان انتخابات کے بعد جب پاکستان ٹوٹ گیا تو اب جب بھی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا اعلان کیا جاتا ہے تو پاکستان کے عوام اس میں چھپے معنی خود تلاش کر لیتے ہیں۔‘
کیا عمران خان اور شیخ مجیب میں کوئی مماثلت ہے؟
پاکستان میں جو انتخابات مستقبل قریب میں ہونے جا رہے ہیں ان میں تلخی تو موجود ہے مگر کوئی سیاسی جماعت ایسا ایجنڈا نہیں رکھتی جیسا شیخ مجیب کی عوامی لیگ رکھتی تھی۔
اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی ایک سیاسی جماعت ایسی نہیں ہے جو چاروں صوبوں میں مقبول ہو۔ پنجاب پاکستان کی کل آبادی کا 53 فیصد ہے اور قومی اسمبلی کی کل 266 عام نشستوں میں پنجاب کی سیٹیں 141 ہیں۔
اس لیے پاکستان کی سیاست میں اسلام آباد کی گدی اسی کو ملتی ہے جو پنجاب میں مقبول ہو۔
پنجاب پہلے مسلم لیگ ن کا قلعہ سمجھا جاتا تھا اور اب خیال کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی اس قلعے کی دیواروں میں شگاف ڈال چکی ہے۔
نواز شریف تین بار وزیراعظم رہ چکے ہیں مگر کسی مرتبہ انہوں نے اپنی مدت پوری نہیں کی۔ جس کی وجہ ان کے ملک کی طاقتور اشرافیہ سے اختلافات بنے ہیں۔ جہاں کل نواز شریف کھڑے تھے وہاں آج عمران خان کھڑے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عمران خان پر نو مئی کی بغاوت کا الزام ہے۔ مگر عمران خان نہ تو شیخ مجیب ہیں اور نہ ہی شیخ مجیب کی طرح کے چھ نکات ان کا منشور ہے۔ اس کے باوجود بعض سیاسی رہنماؤں کا خیال ہے کہ اشرافیہ عمران خان کو شیخ مجیب بنا رہی ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں کہ ’عمران خان اور شیخ مجیب میں نظریاتی طور پر کوئی مماثلت نہیں ہے اور نہ ہی وہ اتنے مقبول ہیں جتنے شیخ مجیب 70 میں مشرقی پاکستان میں مقبول تھے، اس لیے جو الیکشن فروری میں ہونے جا رہے ہیں ان کے نتائج اگر کوئی ایک جماعت کے لیے قابل قبول نہ بھی ہوں تو اس سے سیاسی تناؤ تو بڑھ سکتا ہے مگر پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر سید جعفر احمد جو ممتاز ماہر پاکستانیات ہیں انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1970 کے انتخابات اس حوالے سے تو شفاف تھے کہ انتظامیہ نے انتخابی عمل میں کوئی مداخلت نہیں کی مگر جماعت اسلامی اور کونسل مسلم لیگ کو اشرافیہ کے ایک حلقے کی حمایت حاصل تھی اسی طرح مسلم لیگ قیوم کو بھی معاشی مدد دی گئی تھی
’مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ پولنگ سٹیشنوں پر وہی کچھ کر رہی تھی جو ایک زمانے میں ایم کیو ایم کراچی میں کرتی تھی۔‘
ڈاکٹر سید جعفر احمد نے کہا کہ ’عمران خان اور شیخ مجیب میں کوئی مماثلت نہیں ہے اگرچہ پاکستانی سیاست میں پی ٹی آئی کی وجہ سے بہت پولارائزیشن ہوئی ہے لیکن تحریک انصاف کے کارکن کوئی سیاسی نظریہ نہیں رکھتے۔
’وہ صرف شخصیت کا ایک کلٹ ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے مسائل صرف یہی ایک شخص حل کر سکتا ہے اور باقی سب چور ہیں کیونکہ اس نے ورلڈ کپ جیتا ہوا کیونکہ ا س نے اقوام متحدہ میں تقریر کی تھی۔
’یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح پہلوانوں کا مقابلہ گوجرانوالہ میں ہوتا تھا اور جیتنے والے کو ’رستمِ زماں‘ قرار دے دیا جاتا تھا۔
’اسی طرح پی ٹی آئی کے کارکنوں کے ذہن میں ڈال دیا گیا ہے کہ عمران خان ہی ان کا مسیحا ہے۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان شیخ مجیب ہے اور نہ ہی پی ٹی آئی عوامی لیگ ہے۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔